Monday 18 July 2011

Soorah Kafroon -109








مکّہ کے معزّز قریش قبیلے نے ایک روز محمّد کے سامنے یہ سُجھاؤ رکّھا کہ نۓ فتنے کو ختم
کیا جاے، اسکے لۓ تجویز یہ ہے کہ سبھی اپنے اپنےمعبودوں کی عبادت ایک جگہ بیٹھکرکیا کریں،
کوئ کسی کی عبادت میںت مداخلت کرے, ھر فرقے کے مذہب کا احترام ہو۔ اس سے ہماری آپس میں
محبّت اور بھائا چارگی برقرار رہےگی۔ بات معقول تھی، نئ دنیا کے مہذّب سماج میں آج تک یہ
فضا وجود میں نہیں آئ ۔
اس پر محمّد کا جواب من درجہ بالا قرآنی آئعتیں تہیں۔بُت پرست مُشرقوں کی تجویز اُنکی طبع کے
خلاف تھی کیوں کہ اس میں جنگ جدال، لوٹ مار اور مالِ غنیمت کی برکتیں کہاں؟ اسکے علاوہ
انہوں نے اپنی رسالت پر خطرہ محسوس کیا۔
نمازیو؟
اپنے دل و دماغ کر اُستوری صداقتوں سے اٰراستہ کریں۔ قراٰنی اللاہ کی حکمتِ عملی میں کہیں بھی
معقولیت نہیں ھے۔ انسانیت کے اٰئںنہ میں محمّد ایک غیر معقول نمونہ ھیں۔محمّد کی طرح ھی اگر
آج کوئ اللاہ کاپیغام لیکر آ جاۓ تو تمہارا اُسکے ساتھ کیا برتاؤ ھوگا؟


خود کو آخرالزماںمنوا کرتم کو عقلی طور پر مسدود کیا گیا ہے۔




مومن ’نثارلا یمان‘۔

No comments:

Post a Comment