Tuesday 12 July 2011

Soorah fateha سورہ فاتحہ







سورہ فاتحہ
(پہلی سورہ جس میں ٧ آیتیں ہیں)

قران الّاہ کا بولا ہوا کلام ہے. وہ شروعات اس طرح کرتا ہے - - -۔

کیا یہ الّاہ کا کلام ہو سکتا ہے ؟

یہ تو کسی بندے کی حمد ہے جو کہ الّاہ کی شان میں اوراسکی امان میں گزاری گئی ہے

یا پھر الّاہ کسی سپر الّاہ سے ایسی درخواست کر رہا ہے

الّاہ اگر اپنی طرف سے اس سورہ کو بیان کرتا تو وہ کچھ اس طرح ہوتی - - -۔

سب تعریف میرے لئے ہے، میں ہی پالن ہار ہوں ہر ہر عالم کا۔

میں بڑا مہربان ہوں،

نہایت رحم کرنے والا ۔

میں مالک ہوں روز جزا کا ۔

تو میری ہی عبادت کرو اور مجھ سے ہی درخواست کرو مدد کی۔

اے بندے ! میں ہی بتلاونگا تجھ کو سیدھا راستہ۔ راستہ ان لوگوں کا جن پر ہم نے انعام فرمایا۔

نہ کہ ان لوگوں کا جن پر ہم نے غضب کیا اور نہ ان لوگوں کا جو راستہ سے گمراہ ہوئے۔

اگر الّاہ اس طرح سے قرآن کو نازل کرتا تو یہ درست ہوتا.

مگر خود ساختہ الّاہ کے رسول کی گوٹ ایسے میں پھنس جاتی اور انہیں الّاہ کے پس پردہ اسکا رسول بن پانا مشقل ہو جاتا، بلکہ یہ کہنا ٹھیک ہوگا کہ محمّدا لّاہ کا قرآن ہی نہ بنا پاتے کیونکہ ایسے بڑ بولے الّاہ کو مانتا کوئی نہ، جو اپنے منھ میاں مٹھوبن رہا ہو۔

اس سلسلے میں اسلامی علما الّاہ کے بکواس کو یوں رفو کرتے ہیں کہ قرآن میں الّاہ کبھی خود اپنے منھ سے کلام کرتا ہے، کبھی بندے کے منھ سے.

کیا خدا ے بر ترکی بھی کوئی مجبوری رہی ہوگی جو اپنے بندوں کو وہم میں مبتلا کرتا رہے؟ خود اپنے ہی حضور میں گڑگڑاتا ہے ؟

اسکی قدرت تولامتناہی ہوگی، اگر وہ ہے. غور کریں پہلی آیت،

کہتا ہے - - -۔

"سب تعریف میرے لئے ہے، میں ہی پالن ہار ہوں ہر ہر عالم کا"۔

الّاہ کی خود ستائے اتنی بھی نہیں کہ وہ عدنا انسانوں کے آگے ایسی شیخی بگھارے، بھلے ہی وہ جللے شانہہ ہی کیوں نہ ہو. اپنی مخلوق کی پرورش اگر وہ ڈینگن ھانکنے کے لئے کر رہا ہے، تو اسکو مخلوق پیدا کرنے اوراسکی پالن ھاری کا سلسلہ بند کرے . ویسے بھی اسکی دنیا میں مخلوق دکھی زیادہ ہے اور سکھی کم ۔

دوسری آیت پرآویں - - -۔

آپ نہ مہربان ہیں نہ رحم والے. قرآنی آیتیں چیخ چیخ کر بیان کرتی ہیں کہ ی آپ بڑے منتقم ہیں اوربے قصورانسانوں کو ھر وقت قیامت کی آگ میں جھونکے رہتے ہیں، اگر وہ محمّد کی جہالت کا منکر ہے ۔

تیسری آیت- - -۔

یوم جزا، یہ یہودیوں کی قبر گاہ سے چوری کی گئی روحانیت کی لاش ہے،۔ اسکو عیسائیوں نے بہت گہرایوں میں دفن کر دیا تھا جسکو اسلام کھود کر نکال لایا اور قرآن کے حوالے کیا۔ قرآن یوم جزا کو دُھری نبانا کر، اس پر قایم ہو گیا ہے۔ مسلمانوں کی زندی کا مقصد یہ زمین نہیں، وہ خیالی آسمان ہے کی جنّت ہے جو اسکی حیات جاویدانی ہے۔ دراصل مسلمان یہودیت کو جی رہا ہے۔

چوتھی آیت - - -۔

الّاہ اپنے بندوں کی ذہنی غلامی چاہتا ہے، جسکا ورثہ محمّد کو ملنا ہے

پانچویں آیت- - - ۔

آیت میں الّاہ اپنے آپ سے یا اپنے سپر الّاہ سے درخواست گزار ہوتا ہے کہ وہ م اسکو راہ راست سجھاۓ۔ کیا کوئی الّاہ کبھی اپنے بندوں کو ٹیڑھی میڑھی راہ بتلاتا ہے؟ جی ھاں! وہ محممدی الّاہ ہے جو مسلمانوں کو ٹیڑھی میڑھی راہ بتلاتا ہے، انکو گمراہ کرتا ہے. جسکا انجام ہی ہے کہ آج مسلمان بھٹک رہا ہے، زمین پر نہیں بلکہ آسمان پر اپنی راہ، اسکے بے روح سجدے کر کر کے تلاش رھاہے۔خود قران کئی باراس بات کو دوہراتا ہے۔ " جسکو الّاہ گمراہ کرے، اسکو کوئی راہ پر نہیں لا سکتا"۔ کوڑھ مغض مسلمان کبھی بھی الّاہ کے اس قول پر غور نہیں کرتے کہ ایسی شیطانی حرکت الّاہ کیوں کرتا ہے؟ سوچتے نہیں کہ کہیں دال میں کچھ کالا ہے؟

چھٹیں آیت- - -۔

الّاہ کہتا ہے کہ "اسے ان لوگوں کی راہ بتلائی جاۓ جن پر کہ اسنے کرم کیا؟ یہاں شروع میں ہی میں بتاۓ دیتا ہوں کہ جن مٹھی بھر لوگوں پرمحمّدی الّاہ نے کرم کیا جن کے نام قرآن سو بار دوہراتا ہے, یہ لوگ عہد سنگ کے لوگ ہیں جب انسانی تہذیب ارتقائی عالم میں تھی اورانسان کپڑے اور جوتے بنانا اور پہننا سیکھ رہا تھا۔ ابراہیم (ابراہم)اسماعیل، اسحاق، لوط، یعقوب، یوسف، موسیٰ، داؤد، سلیمان زکریا ، مریم اورعیسیٰ علیہ لا سلامان وگیرہ ہیں جن الّاہ نے کرم کیا۔

ساتویں آیت - - -۔

غور طلب ہے کہ الّاہ غضب ڈھانے والا بھی ہے ؟۔ الّاہ اور اپنے مخلوق پر غضب ڈھاۓ؟ سب تو اسی کے نباۓ ہوئے ہیں، بغیراسکے حکم کے پتہ بھی نہیں ہلتا، انسان کی کیا مجال کہ کوئی من مانی کر سکے ۔ انسان کو کیوں ایسا بنایا کہ اس پر ظلم ڈھایا جاۓ؟ آخیرمیں الّاہ اپنے آپ سے یا اپنے سُپر سے د عا گو ہوتا کہ اسکو ایسا راستہ نہ بتلانا کہ جس پر چل کر ہم گم وھو جایں۔ گمراہوں کے بھی قرآن میں گنے چُنے نام آتے ہیں، راہ راست پر چلنے والوں کی طرح. وہ ہیں شیطان، آزر،ثمود، عاد، فرعون، بے نام لوط کی جورو وغیرہ وغیرہ۔ محمّد اپنے کچھ یہودی ہم رقابوں کی مدد سے معاملے میں الٹ پھیرکر کے اپنا قرآن رچا جسے عالم اسلام خوب جانتا ہے مگر دروغ آمیزی جنکی روزی روٹی ا بن چُکی ہے وہ اپنی خصلت سے مجبور ہیں۔ .

یہ سورہ فاتحہ کی ساتوں آیتیں بندے کے منہ سے ادا کی گئی ہیں. یہ سلسلہ قرآن میں برابر چلتا رہتا ہے، کبھی یہ الّاہ کے منہ سے ادا ہوتا ہے تو کبھی بندے کے منہ سے. اسےعیّارعلما الّاہ کی گفتگو کا اندازِ بیانی بتلاتے ہیں، مگر ماہرین نفسیات اسے انسان کی کمزور نیّتی قرار دیتے ہیں. اسمیں محمّدی اُمّیت اور جہالت کی بو آتی ہے.قرآن کی لن ترانی کسی مکّار کی وجدانی د کیفیت معلوم پڑتی ہے۔ محمد جب تک یاد رکھتے ہیںکہ میں الّاہ بن کر بول رہا ہوں تب تک تو زبان صحیح رہتی ہے اور جب بھول جاتے ہیں کہ الّاہ نہیں انسان ہوں، تو زبان گڈ مد ہو جاتی ہے. یہ بہت مشقل بھی تھا کہ کوئی امّی پوری قرآن کو الّاہ کے منہ سے خارج کر پاتا ۔۔


مومن "نثارِ لا یمان"۔

No comments:

Post a Comment