Saturday 9 July 2011

ایمان اور ایمان داری کی بات







ایمان اور ایمان داری کی بات


میں ایک مومن ہوں جو ایمان کوسچائی،حق اور فطری تقاضوں کے پیمانے پر
ناپتاہے، تولتا ہے اور پھر تسلیم کرتا ہے۔
بقول غالب ۔۔۔


وفا داری بشرطِ اُستواری اصلِ ایماں ہےٰ
مرے بت خانے میں تو کعبہ میں گاڑو برہمن کو۔
مسلم بہر صورت اسلام کو تسلیم کئے ہوئے ہوتا ہے چاہے وہ حق بات ہو
یا نا حق. اسلام اس دھرتی پر نا حق نظام ہے، جو مذہبِ ناقص تو ہو
سکتا ہے مگر 'صداقت' نہیں.
مال غنیمت کے مذموم ذریعہ معاش نے اسے
ایک نئی اور بد ترین جہت دی ہے، جو دھیرے دھیرے ایک جنگی شکل
اختیار کر گئی ہے. قتل، جزیہ اور زکات کی بھر پائی، عوام کے ساتھ ظلم و
زیادتی اور نا انصافی کے سوا، اسلام نے دنیا کو دیا کیا ہے؟
اسلام نے دنیا پر جو قہر ڈھایا ہے، جتنا انسانی خون پیا ہے، کسی دوسری
تحریک نے نہیں. ماضی کی پردہ پوشی نہیں کی جا سکتی. قرآن خود ساختہ
رسول الّاہ، محمّد کی گڑھی ہوئی بکواس ہے، جسکو کتاب کی شکل دیکر
کلام الہی بنا دیا گیاہے۔
یہ کتاب نفرت، تشَدُّد، بغض اور نا انصافی کے سبق سکھلاتی ہے. انسانوں
میں آپس میں نفاق پیدا کرتی ہے۔ جنگ جنگ اور جنگ، انسانی معاشرے کو
پرُ امن تو کبھی رہنے ہی نہیں دیتی. نئی انسانی قدریں ہیں کہ اسکو برداشت
کر کے بھی مسلمانوں کوراۓ دے رہی ہیں کہ وہ خود انسانیت دشمن قرآنی
صفحات کو پھاڑ کرنذرآتِش کردیں. یہ انکی نیک صلاح ہے، ورنہ وہ
وہ چاہیں تو مسلمانوں کوانکے برے انجام تک پہنچا سکتی ہیں۔
مسلما نوں نے اسلام کا کلمہ¬ نا مرادکو پڑھ کر صرف اپنا ہی عاقبت بگاڑا ہے
دنیا کو دیا یا دنیا سے لیاکچھ نہین ؟
نئی دنیا کا رنگ اور اسکی برکتیں انھیں غیر مسلموں کی کاوشوں کا نتیجہ
ہیں، ترققی پسند ممالک کی دین ہیں. تمام سائنس دانوں کے علم کا پھل ہیں
جنکو یہ عاقبت کے سوداگر عالمان دین بڑی بےغیرتی کے ساتھ بھوگ رھے
ہیں۔
اب میں اس نادار قوم مسلمانوں کی جبوں حالی کے راز بتلاتا ہوں. اسلام
انتہائی بدحالی کے حالت میں عربوں میں اپنی بد حالی کو ڈھوتے ہوئے
وجود میں آیا۔ ڈاکہ زنی، شب خون، لوٹ پاٹ ابھی تک تاریخ انسانی میں
جرم ہوا کرتا تھا اور اس فعلِ بد کی سزا ملا کرتی تھی، مال غنیمت کہکر
محمّد نے اسے جائز قرار دیا، مذہب کے نام پر بے کاروں کو جنگی لوٹ مار
کی آسان روزی مل گئی۔
بنونزیر اور خیبر جیسی خوش حال بستیاں اس نئی وبا سے تباہ و برباد ہو گیں
دوسری طرف " اسلامی علم جہالت " کا رحجان مسلم حکمرانوں نے اسلامی
تحریک میں بڑھایا،جس سے ایک خواندہ طبقہ پیدا ہوا جو جنگی صعوبتوں سے
بچنا چاہتا تھا، وہ اسلام کی اشاعت اور طباعت میں لگ گیا یہ ناکارہ لوگ
قلم کا جوہر دکھانے لگے اور دوسرا جاہل گروہ زور تلوار، پھر کیا تھا
جہاد کی ساتھ جھوٹ، دروغ، لغو، مبالغہ اور مکر کی پُل بندھنے لگے
جنگون میں فرشتے لڑنے لگے، انکی تعداد کم و بیش پر، ھاراور جیت
منحصر ہونے لگیں. ہر معاملے میں الّاہ مداخلت کرنے لگا اور جبریل
علیہ لا سلام محمّد کی ہم رکاب ہوئے۔
سیکڑوں سالوں سے اس علم جارھیّت میں دانش مندی اور فلسفے بھرے جا رھے
ہیں. مسلمانوں کے سب سے برے مجرم یہ مردود علماۓدین ہیں. یہ ظالم نفی
میں مثبت کے پہلو نکالنے میں ماہر ہوتے ہیں. جاہل کو اُمّی لکھ کر، اسکی
نا عاقبت اندیشی کو دور اندیشی میں بدل دیتے ہیں. ہمیشہ ہی انکے مکر اور
ریا کاریوں کا بول بالا رہا ہے. کئی بار انکا سر بھی زہریلے ناگوں کی طرح
کچلا گیا، ان پر پابندیاں لگائی گیں، مگر یہ کمبخت ہوتے ہیں بہت
سخت جان ۔
آج انکا عروج ہے، ملک کا جمہوری نظام انکے پھولنے پھلنے کی لئے کافی
سازگار ہے. انکو پرواہ نہیں مسلمانوں کی بدحالی کی۔ انکو تو مسلمانوں پر
اقتدار چاہئے. مال غنیمت کی ساتھ ساتھ عزت اور شہرت۔ غُنڈوں کی طرح ہی
انکا بڑا مافیہ گروہ ہوتا ہے جو مسلمانوں کو چاروطرف سے جکڑے رہتا ہے,کوئی


برلا ہی ہوگا جو انکے جال سے بچا ہو۔
جہاد کی لوٹ ختم ہو گئی ہے مگر مدرسے کی تعلیم سے نکلے یہ دہشت
گرد مسلمانوں کو متاسّرکئے ہوئے ہیں۔
یہ ذلیل علما ہندستان کی سیاست میں چلّاتے پھرتے ہیں کہ اسلام امن اور
بھائذ چارےکا علم بردار ہے، کوئی انسے پوچھے کہ مدرسوں میں پڑھائی
جانے والی قرآن اور حدیثوں کے پیغام کوئی اور ہیں؟ یا یہی جس میں جہاد اور
نفرت کی بدبو آتی ہے؟
مال غنیمت اور جزیہ جو کبھی غیر مسلموں سے بزورتلوار مسلمان وصول کیا
کرتے تھے، اب یہ عالم مسلمانوں سے چندہ اور بھیک کی شکل میں وصول
کرتے ہیں. اس سے مسلمانوں کا دوہرا نقصان ہو رھا ہے۔ اس کے لئے انکو علم
نو سے ایک طرف محروم رکھا جاتا ہے تو دوسری طرف انکو مالی ہرجانہ ان
کمبختوں کو دینا پڑتا ہے. کبھی کبھی ¬توگولیوں سے بھُن جانا پڑتا ہے جیسا
کہ پاکستا ن افغنتان اور دیگر اسلامی ملکوں میں دیکھا جاتا ہے۔
مسلمانوں کی بھلائی اسی میں ہے کہ وہ ان سے کوسوں دور رہیں، اپنے
بچوں پر انکاسایہ نہ پڑنے دیں. انکے ذات اور انکی کوششوں سےحاصل کی
گئی سرکاری رعایت کو قبول نہ کریں. خوددار بنیں، بحیثیت عقللیت کسی
طرح کی سرکاری رعایت قبول نہ کریں، سرکارسےکہیں کہ مسلموں کو"
ورگ وشیش " لکھنا بند کرے، سرکار نے اپنے سکول اور کالجز کھول رکھے
ہیں، جہاں کوئی بھید بھاؤ نہیں ہے اور اگر ہے تو اسکا سامنا خود سیکولر بن
کر کریں. سرکاری ادارے بلا تفریق سب کی لئے ہیں. جو انکو ترک
کرکے مدرسہ جاتا ہے، انکی معاشی ذمّے داری سرکار کو نہیں لینی چاہئے،
بلکہ ایسے بچون کے ورثہ پر نذر خاص رکھنا چاہئے کہ جو دینی تعلیم
لیکر طالبانی تو نہیں بن رھے ؟
مذہب اسلام مکمّل طور پر غلط اور مہلک نظام ہے۔
مسلمانوں پر سارا زمانہ لعنت بھیج رھا ہے. یہ علما قوم کے مجرم ہیں. انکو
سمجھنے کی کوشِش کریں. ابھی سویرا ہے، جگ جایں¬، جاگنا بہت آسان ہے
بس دل کی آنکھ کھولنے کی ضرورت ہے. آپکو ترک اسلام کرکے خدا
نخواستہ ہندو نہیں بننا، نہ کرشچن، معمولی فرق کی ساتھ مسلم سے خود کو
مومن" بنا لیں. مومن جو سچائی پر ایمان رکھتا ہے، اسلامی کلمہ پر نہیں
آپکا نام، آپکی تہذیب اور آپکی زبان کچھ بھی نہیں بدلےگا، بس نجات
پایںگے اس جھوٹے اللھ سے جسکو محمّد نے چودہ سو سال پہلے گڑھا تھا,
نجات پاینگے اس خود ساختہ جھوٹے رسول سے اور اسکے جہالت بھرے
فرمودات قرآن اور حدیث سے جو آپ پر داغ بنکر لگ گے ہیں۔
.مسلمانوں! یہ دنیا تغییر پذیر ہے، تمام قومیں وقت کے حساب سے اپنی
فکراور نظریہ بدلتی رہتی ہیں، تم بائس اسلام آج بھی 1400 سال پیچھے ہو، تم
آج رسوائی اور ذلّت کے مقام پر پہنچ گے ہو. تمہارے یہ حرام زادے علما
ایک دن تمکو جھاڑو پنجہ تمہارے ہاتھوں میں تھما دینگے۔



مومن "نثارِایمان"ھ

No comments:

Post a Comment