Thursday 14 July 2011

سورہ اخلاص- ١١٢







ہندوتان میں اسلامی تنظیموں کی دہشت گردی مسلسل برقرار ھے۔یہ
تخریب کار کہیں اور سے نہیں, مدرثوں سے فارغ ہونے والے طالب علم ہوتے
ہیں۔ میں برسوں سے کہرہا ہوں کہ مدرثوں میں یہی جہادی قرآن اور
حدیثیں پڑھائ جا رہی ہیں جس پر کوئ توجّہ نہیں دی جاتی، جب کہ
کروڑوں روپۓ انکے لوازمات میں برباد ھوتے ہیں۔ مدرثوں کی تعلیم کو جُرم قرار
دیا جاۓ، کٹّر پن پر خاص نظر رکھی جاۓ، یہاں تک کہ اسلامی داڑھی، ُ
ٹوپی اورلباس پر بہی شک کی نگاہ رکہی جاۓ، خاص کر نو جوانوں پر۔
نیتا کہتے ہیں کہ ایسے اقدام سے مسلم ووٹ بینک انکے ھاتھوں سے کھسک
جاےگا میرا ماننا ہے کہ ڈر ہندو ووٹ بینک کا ھے کہ اسسے مندروں پر بہی
پابندی ہونا لازم ہو جاۓگی۔ در اصل دھرم اور مذہب کی دنیا ہی فساد کی
جڑ ہیں۔ ملک کو ایک بڑے انقلاب کی ضرورت ھے۔

واقعی قدرت بے نیاز ہوتی ہے۔ اسکوکسی کے نفع یانقضان سے کوئ لینا دینا نہیں۔ وہ
اپنے آپ میں مست رہتی ہے، اسکو اس کی کوئ سمجھ نہیں کہ موسم بہار اور
سونامی میں کیا فرق ہے۔ وہ لا متناہی ہے، اسکا ایک نظام ہے جسےکوی نہیں جانتا۔
نمازیو!
سورہ اخلاص قراَن کی غنیمت سورہ ہے۔ پہلی غنیمت سورہ تھی سورہ فاتحہ۔ باقی


قرآنی سورتیں مکروہ ہیں جنہیں پڑھنے میں کراہیت ہوتی ہے۔ اگر قرآن کو قایم ہی


رکناہےتو ان دونوں سورتوں کو چھوڑ کرباقی قرآن نذرِآتش کر دیا جاے۔


عالمی برادری میںاگراسلام کی لاج بچانی ہے تو یہ صورت غنیمت ہے۔ویسے ضرورت ہےمکمل انقلاب کی۔
اس میں کوئ شک شُبہ نہیں کہ قدرت کی کوئت اولاد ہوتی ہے نہ وہ کسی کی
اولاد ہے۔ اسی طرح قدرت کی مذمت کرنا یا اسکی مدح سرائ کرنا بھی نادانی ہے۔
قدرت کا مقابلہ گرنا ہی قدرت کی منشہ ہے،اسکا پیغام ہے۔ قدرت پر فتح پانا ہی
اسکی آرزو ہے اور اسکا تجسّس ہے۔ تلاش انسانی زندگی کاراز ہے۔


تمام مخلوق کاغلبہ قدرت کی چاہت ہے، خود پرمغلوبیت اسگی نسوانی خواہش ہے۔




مخلوق پر غالب ہونااسکی مرداناشان ہے۔




مومن ’نثار لا یمان

1 comment: