Tuesday 26 July 2011

सूरह फील 105







یہ کھاۓ ہوئے بھوسے کا نتیجہ گوبر والی آیت ہے. دیکھئے گوبر گنیش الله کیا کہتا ہے - - - ٠


اگر انسان کسی خدائی طاقت کو نہیں مانتا تو سوال یہ اٹھتا ہے کہ وہ عبادت کسکی کرے؟ کیوں کہ انسانی فطرت عبادت کی عادی ہوتی ہے.ا نسان ہی نہیں حیوان بھی کسی نہ کسی کی تابعداری چاہتا . مخلوق فطری طور پر کسی کا ماتحت رہنا چاہتی ایک چینٹی اپنی رانی کی ماتحت رہنا پسند کرتی ہے تو ایک ہاتھی اپنے سردار کے ماتحت رہتا ہے. کتے اپنے مالک کی سر پرستی کے لئے انسانوں سے زیادہ بیتاب رہتے ہیں، اسی طرح پرندے اپنے جوڑے کے لئے مر مٹنے کے لئے تییار رہتے ہیں .


حضرت انسان کا کیا کہنا ، انکی ہانڈی میں تو بھیجا بھرا ہوا ہے جو ہر وقت ہر معاملے کے لئے ابلتا رہتا ہے. نیکیوں اور بدیوں کا وہ شکاری ہے، جیسی اسکی عادت پڑ جانے. انسان اپنے وجود کو غالب رکھنے کی دوڑ میں ہمیشہ دوڑ کا کھلاڑی بنا رہتا ہے، مگر بلندیوں کوچھو لینے کے بعد بھی وہ متلاشی رہتا ہے کہ کوئی اسکا سر پرست ہو٠


صوفی تبریز الله کی تَلآش میں اتنا غرق ہوا کہ جب اسکی آنکھ کھلی تو اسے اپنی ذات کے علاوہ کچھ نہ دکھا اور اسنے اپنے حاصل کا اعلان کیا کہ میں خدا ہوں، انلحق ٠ اسلامی تا نا شاہوں نے اسے قتل کرا دیا ،اسکی رگ رگ سے صداے انل حق گونجتی رہی٠
کچھ ایسا ہی گوتم کے ساتھ ہوا، انہوں نے ایشور کے تَلآش میں بچا ہوا خود کو پایا اور" اپو دیپو بھوه " کا نعرہ دیا٠
میں بھی کسی خدا کی برتری کی ماتحتی چاہتا تھا بڑی تلَلآش کے بعد ایک دن کبیر کا دوہا ذہن میں تیر گیا. . . .٠
سانچ برابر تپ نہیں، جھوٹ برابر پاپ٠


جاکے ہردے سانچ ہے، تاکے ہردے آپ٠
میں سچائی کا بندہ بن گیا ٠
نما زیو! ٠
 اسلام نازل ہونے کے لگ بھگ ٨٠ سال قبل کا واقعہ ہے کہ مکّے میں کعبہ پر کوی ابرہہ نام کا حکمران حملہ ور ہوا تھا، غیر فطری واقعہ ہے کہ ابرہہ کی ہاتھیوں پر ابابیلیں اپنی چونچوں میں کنکر لا لا کر برساتی رہیں کہ آخر میں وہ بھاری بھرکم ہاتھیان پسپہ ہوئیں اور میدان چھوڑ کر بھاگیں. محمد نے اس بات میں مزید اضافہ کر دیا کہ ہاتھیان کنکریوں کی مار سے کھاۓ ہوئے بھوسے کا گوبر ہو گیں. بھلا سوچیں کہ ابابیلوں کی اوقات کیا ہے ، اسکے چوچوں میں ایک دانہ ہی آ سکتا ہے، اسکی مار سے ہاتھی کا جسسہ بھوسے سے بھی بد تر ہو گیا؟ کیا قدرت کا قانون اسے سچ مان سکتا ہے؟ جب کہ محمدی الله اسواقعہ کو بیان کرتا ہے.
واضح ہو کہ یہ واقعہ اس وقت کا ہے جب کعبہ پر بتوں کی اجارہ داری تھی جن بتوں کو محمد نے اکھاڑ پھینکا. اس سے تو یہ لگتا ہے کہ الله ان سے اور انکے کفر سے راضی تھا. یہ جھوٹا واقعہ بھی تہارے عبادت کا ایک حصّہ بن گیاہے ٠


مومن ' نثار لا یمان٠

No comments:

Post a Comment