Sunday 31 July 2011

Soorah hamza -104














ڈاکٹر سبرا منیم سوامی ہندوستان کی جانی مانی ہستی ہیں، انمیں اپنی انفرادیت ہے. انہوں نے اپنے خیال کا کھل کر
,اظہار کیا ہے، جس پر مسلمانوں کو ٹھنڈے دماغ سے سوچناچاہئے. ہمارے بہت سے رہنما ہیں جو مصلحتاً زبان بند رکھتے ہیں، انکے منہ پر کچھ رہتا ہے اور دل میں کچھ. ڈاکٹر سبرا منیم سوامی نے بہت سے سوال اٹھاۓ ہیں اور انکا حل بھی سجھایا ہے مگر وہ مسلمانوں کے بارے میں دور تک نہیں جا سکے ہیں یہ انکی کمزور شخصیت ہے جس کو ادھوری ہی کہا جایگا٠ .
انکے حل کی ایک کڑی میں لیتا ہوں جس میں ٣٠٠ مسجدوں کو مسمار کرکے انکو مندر کا روپ دینا ہے٠


اسنے مندر توڑی تھی تم مسجد کوتوڑو ٠


وہ تھا وحشی دور کا بندہ، اسے رشتہ جودو٠


میرے اس شعر میں لمبی بحث چھپی ہوئی ہے. جسکے تحت سوال جواب ڈاکٹر صاحب خود اپنے اندر بیٹھ کر کریں - - -٠
آج کے اس مہزب دنیا میں آپکے اس عمل کا ردِّ عمل کیا ہوگا؟ صرف ایک بابری مسجد ٹوٹنے کے ردِّ عمل میں دنیا بھر کی درجنوں مندرن ٹوٹ گئی تھیں ، دنیا میں بھارت کی رسوائی جو ہی وہ الگ سے ٠
ہندوستان میں اسلام کیوںپہلا پھولا، اسکی وجہ ڈاکٹر سبرا منیم سوامی کا "منووادی ہندوتو ہے"٠
جب مشترکہ خاندان سے کوئی فرد الگ ہوتا ہے تو اسکو گھر کی ہر چیز کا حصّہ دیا جاتا ہے، ٢٥% فرد ہندو پریوار سے نکل کر اسلام کے دامن میں آ ے، تو انکو ہر چیز کی طرح ہی پوجا ستہلوں میں بھی حصّہ ملنا چاہئے. مگر انہونے چھینا جھپٹی میں چند مندر ہی پایا جن کہ لاکھوں میں سے ہزاروں کی تعداد پانے کے وہ مستحق تھے ملے انکو صرف ٣٠٠ وہ بھی چھینا جھپٹی کے بعد ٠
ہزاروں کی تعداد میں اس فرد کے پاس آج مسجدیں ہیں توفرد کی محنت کے سبب اور فرد کے ساتھ ہوئی نا انصافی کے سبب سے ٠


دنیا کے خاص چار دھرم جنکے بارے میں عام طور پرجانا جاتا ہے، بے ایمانی کی بنیادوں پر وجود میں آ ے ہیں ٠
١- یہودی مسلک - - - انسانیت کے منھ پر داغ ہے، جو یہ یقین کرتا ہے کہ یہودی ہی دنیا کے برتر قوم ہے جو باقی قوموں پر غلبہ اور حکمرانی کا اپنا پیدائشی حق رکھتی ہے٠।
٢ - ہندودھرم - - - یہودیوں سے بھی چار قدم آگے ہیں ، اسکا" منو اسمرتی ودھان" ہے، جسے پڑھ کر ابکائی انے لگتی ہے ٠ ہندوستان پر اسکی پکڑ ،جکڑ چکی ہے٠ جسے کسی ماؤزے تنگ کی ضرورت ہے٠। یہ دراصل دھرم کے نام پر ادھرم ہے پانچ فی صد برہمن راج کرتا ہے ،تین فی صد ٹھاکر اسکی پھرے داری کرتے ہیں دو فی صد بنیا ذلّت اٹھا کر اسکا پیٹ بھرتے ہیںباقی انسان، انسان کی ذات ہی نہیں نہیں ہیں ، انکو یہ جانور سمجھتے ہیں٠।
٣- ہمارے یہاں کبیر ہوئے ہیں اور یورو سلم میں کبیر جیسا الٹواسیی ہانکنے والابے عمل بندہ عیسٰی ہوا جو یہودی ہوتے ہوئے بھی اسکی کوکھ پرصداقت کی لاتیں مارتا تھا. وہ بہت اچھا انسان نہ ہوتے ہوئے بھی ، صلیب کی سزا نے اسے خدا کا بیٹا بنا دیا. کبیر کے درجے کا نہ تھا جو کہ جھینی چد ریا بن کر محنت کی روٹی پر ہی ہاتھ مارتا تھا اور اپنی وا نی سے سماج سدھار کرتا تھا.اسکے مقابلے میں عیسٰی ایک کمزوز انسان تھا مفت کی روٹی اور شراب پر اسکی زندگی ٹکی ہوئی تھی مگر اسنے یہود یت کی بنیاد کھودنے کا کام کیا تھا, جو ٹھیک تھا٠
٤- اسلام ؟ ایک اُمًی (جاہل اور گنوار) کی اُمًیت کا نتیجہ جسنے جہالت کو اوڑھا بچھایا اور جاہلون کی فصل اگائی ، جسکے زہریلے دانے دنیا کے لئے عذاب بنے ہوئے ہیں. مسلم قوم اگر ایمان دار مومن بن جاۓ تو اسکے لئے صف اول آج بھی باہیں پھیلا ہوئے ہے٠
بلراج مدھوک نے مسلمانوں کا بھارتیہ کرن کر کے قومی دھارے میں لانے کی راہ بتلای تھی جو
انکے زوال اور ذلّت کی وجیہ بن گئی٠
اب ڈاکٹر سبرا منیم سوامی مسلمانوں کے جمہوری حقوق کو ہی غوطہ دینے کی راۓ دے رہے ہے. اس کے لئے پہلے انہیں" ہندوتو" کے خبیث دیو کو ماٹی میں ملانا ہوگا٠ ڈاکٹر سبرا منیم سوامی آپ کیسے ہندو ہیں؟ ویدک کالیں یگ کی ہندو ہیں یا آزاد کراۓ ہوے ہندوستان کے ہندو؟
آپ ہندو وچارک ہیں، آپکو اس ناچیز کا مشورہ ہے کہ پوری منو جاتی کو لیکر وچار کریں٠

نمازیو
الله کو ماننے سے پہلے اسے جاننے کی ضرورت ہے، اسکے لئے ہمیں
اپنے دماغ کو روشن کرنا پڑیگا. اس دھرتی پر جتنے بھی رحمان اور بھگوان
ہیں سب حضرت انسان کے دماغ کے پیداوار ہیں. فطرت کے عیب و ہنر انکے ہتھیار
اور انھیں ہتھیاروں سے یہ اپنا ذریعہ معاش حاصل کرتے ہیں٠


محمد یہ اوچھی باتیں الله کے منہ سےکہلاتے ہیں کمزور اور مجبور لوگ ظالم کے منہ پیچھے ہی زبان کھولتے ہیں ٠
محمد ایک متقم الله بناتے ہیں اور حق بولنے والوں کےقتل کی وہیاں نازل کرتے ہیں، تو کون بے وقوف حقکی بات کریگا انکے آگے؟


مال کو پسند کرنے والا، دوسروں کو اسے بیغرض رہنے کی صلاح دیتا ہے؟ اسنے جنگی لوٹ پاٹ کو مال غنیمت کہ اور ہر جنگ میں لوٹے ہوئے مال میں سے %٢٠ ٠اپنا حصّہ مقرر کیا، وہ نا انصاف ، انصاف کی باتیں کرتا ہے ٠



مومن ' نثار لا یمان ' ٠


Wednesday 27 July 2011

Soorah ho m zah - १०४












الله کو ماننے سے پہلے اسے جاننے کی ضرورت ہے، اس کے لئے ہمیں اپنے دماغ کو روشن کرنا ہوگا. اس دھرتی پر جتنے بھی خدا کے تصوّراتی نام ہیں سب حضرت انسان کے گڑھے ہوئے ہیں. فطرت کی کارگزاری کے ساتھ ذہنی سمجھوتہ انکا فارمولا ہوا کرتا ہے، جسے عوامی سمجھ قبول کر لیتی ہے، یہی انکی کامیابی ہوتی ہے اور انکی پیغمبری کی شروعات یہیں سے ہوتی ہے. قدرت کا احمقانہ مطالعہ یہ قران ہے جسکے فکری بت تھے محمد . خالق اور مخلوق کی فکسنگ انکا جنوں بن جاتا ہے جو بعد میں زریعہ معاش کا راستہ بن جاتا ہے . ہم سچ کے آشنا ہو سکتے ہیں اگر غورکریں کہ قدرت نے ہمیں صرف خام مال دیا ہے جسے شکل دینا مخلوق کا کام ہے ، خاص کر بنی نوع انسان کا. ہاتھ پیر ، کان ناک، دل و دماغ سب عمر کے ساتھ ساتھ کام کرنے لگتے ہے جنکو مسلسل رہنمائی درکار ہوتی ہے. سب سے آخر مرحلہ ہیں فنشنگ کا جسکے لئے قدرت نے ہمیں عقل سلیم اور ضمیر دے رکھے ہیں. اس زمین کو ہی ہم جنّت نما بنا سکتے ہیں، اگر قدرت کے بخشے ہوئے اوزاروں کا صحیح صحیح استعمال کریں. ہمارے وجود پر فطرت کی صداقت کی جگہ روحانیت کا جھوٹ جھوٹ غالب ہے ٠
الله کی آگ کی صفت ملاحظہ ہو - - -٠
جسمے تمام دنیا کے مسلمان جھلس رہے ہیں ٠
نمازیو !٠
اپنے عقیدہ پر نظر سانی کرو٠
الله جیسی ہستی عاجز ہے؟ کیا الله بھی کسی نالایق اولاد کی ماں ہے؟
در اصل عاجز تھے محمّد جنکی اونٹ پٹانگ باتیں عوام نہیں مان رہے، اور جو الله کا درجہ گرا رہے ہیں٠
الله کے لئے کیا ممکن نہیں ہے ؟ وہ اپنے وجود کا سبوط دے، جن بندوں کی قسمت میں اسنے جنّت لکھ رکھی ہے، انکے ہاتھوں میں چھلکتا جام دے٠ محمد کہتے ہیں کہ مجھ کو اور میرے خیالی الله کو مانو تو مرنے کے بعد تمہیں جنّت کی سہولتیں میسّر ہونگی ، تو اس کا ٹریلر اسی زندگی میں دکھلاؤ ایک جھلک. وہ اگر ایسا کر دے تو کون کمبخت ایمان نہ لاے گا ؟
مگر الله کے لئے یہ ممکن نہیں، افسو تمہارے لئے کتنا آسان ہے کہ جاگو نے سرے سے غور کرو کہ سچچائی کیا ہے؟٠


مومن 'نثارلا یمان' ٠

Tuesday 26 July 2011

सूरह फील 105







یہ کھاۓ ہوئے بھوسے کا نتیجہ گوبر والی آیت ہے. دیکھئے گوبر گنیش الله کیا کہتا ہے - - - ٠


اگر انسان کسی خدائی طاقت کو نہیں مانتا تو سوال یہ اٹھتا ہے کہ وہ عبادت کسکی کرے؟ کیوں کہ انسانی فطرت عبادت کی عادی ہوتی ہے.ا نسان ہی نہیں حیوان بھی کسی نہ کسی کی تابعداری چاہتا . مخلوق فطری طور پر کسی کا ماتحت رہنا چاہتی ایک چینٹی اپنی رانی کی ماتحت رہنا پسند کرتی ہے تو ایک ہاتھی اپنے سردار کے ماتحت رہتا ہے. کتے اپنے مالک کی سر پرستی کے لئے انسانوں سے زیادہ بیتاب رہتے ہیں، اسی طرح پرندے اپنے جوڑے کے لئے مر مٹنے کے لئے تییار رہتے ہیں .


حضرت انسان کا کیا کہنا ، انکی ہانڈی میں تو بھیجا بھرا ہوا ہے جو ہر وقت ہر معاملے کے لئے ابلتا رہتا ہے. نیکیوں اور بدیوں کا وہ شکاری ہے، جیسی اسکی عادت پڑ جانے. انسان اپنے وجود کو غالب رکھنے کی دوڑ میں ہمیشہ دوڑ کا کھلاڑی بنا رہتا ہے، مگر بلندیوں کوچھو لینے کے بعد بھی وہ متلاشی رہتا ہے کہ کوئی اسکا سر پرست ہو٠


صوفی تبریز الله کی تَلآش میں اتنا غرق ہوا کہ جب اسکی آنکھ کھلی تو اسے اپنی ذات کے علاوہ کچھ نہ دکھا اور اسنے اپنے حاصل کا اعلان کیا کہ میں خدا ہوں، انلحق ٠ اسلامی تا نا شاہوں نے اسے قتل کرا دیا ،اسکی رگ رگ سے صداے انل حق گونجتی رہی٠
کچھ ایسا ہی گوتم کے ساتھ ہوا، انہوں نے ایشور کے تَلآش میں بچا ہوا خود کو پایا اور" اپو دیپو بھوه " کا نعرہ دیا٠
میں بھی کسی خدا کی برتری کی ماتحتی چاہتا تھا بڑی تلَلآش کے بعد ایک دن کبیر کا دوہا ذہن میں تیر گیا. . . .٠
سانچ برابر تپ نہیں، جھوٹ برابر پاپ٠


جاکے ہردے سانچ ہے، تاکے ہردے آپ٠
میں سچائی کا بندہ بن گیا ٠
نما زیو! ٠
 اسلام نازل ہونے کے لگ بھگ ٨٠ سال قبل کا واقعہ ہے کہ مکّے میں کعبہ پر کوی ابرہہ نام کا حکمران حملہ ور ہوا تھا، غیر فطری واقعہ ہے کہ ابرہہ کی ہاتھیوں پر ابابیلیں اپنی چونچوں میں کنکر لا لا کر برساتی رہیں کہ آخر میں وہ بھاری بھرکم ہاتھیان پسپہ ہوئیں اور میدان چھوڑ کر بھاگیں. محمد نے اس بات میں مزید اضافہ کر دیا کہ ہاتھیان کنکریوں کی مار سے کھاۓ ہوئے بھوسے کا گوبر ہو گیں. بھلا سوچیں کہ ابابیلوں کی اوقات کیا ہے ، اسکے چوچوں میں ایک دانہ ہی آ سکتا ہے، اسکی مار سے ہاتھی کا جسسہ بھوسے سے بھی بد تر ہو گیا؟ کیا قدرت کا قانون اسے سچ مان سکتا ہے؟ جب کہ محمدی الله اسواقعہ کو بیان کرتا ہے.
واضح ہو کہ یہ واقعہ اس وقت کا ہے جب کعبہ پر بتوں کی اجارہ داری تھی جن بتوں کو محمد نے اکھاڑ پھینکا. اس سے تو یہ لگتا ہے کہ الله ان سے اور انکے کفر سے راضی تھا. یہ جھوٹا واقعہ بھی تہارے عبادت کا ایک حصّہ بن گیاہے ٠


مومن ' نثار لا یمان٠

Monday 25 July 2011

Soorah Quraish 106




نمازیو ! ٠
اول تو تم قریش نہیں اور غالباً عرب بھی نہ ہوگے، یہ قریش سردار کی کہی گئی باتوں کو جو کہ کہیں بھی تمہارے حق میں نہیں جاتیں، اپنی نمازوں میں کیوں دوہراتے ہو؟ کیا تمہارے خون میں اپنے ہندی بزرگوں کے خون کا چند قطرہ بھی نہیں بچا ہے؟
کیا اس طرح کا پیغام کسی خالق کاینات کے ہو سکتے ہیں, آدھے ادھورے? بے بنیاد باتیں ٠ جن قریشیوں کی تم نمازیں پڑھ رہے ہو وہ جھگڑالو لوگ تھے جو آج بھی اچھے انسان نہیں ہیں. وہ تمکو ہندی مسکین کہتے ہیں تمکو حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں . تیل کی دولت نے انہیں اندھا بنا دیا ہے. کل تک ہندی حاجیوں کے پیر دبانے اور پاخانہ صاف کرنے والے آج تمکو محتاج اور مسکین کہتے ہیں .ویسے بھی اسلام کے حساب سے تم ھربی ہو ، انکے برابر عربی ہو ہی نہیں سکتے٠
تمہارا ضمیر ایکدم مر چکا ہے ٠
اگر تم قریش یا ارب بھی ہو تو صدیوں سے زمیں ہند کا کھا پی رہے ہو، اب ہندی ہو جاو. قریش ہونے کا دورہ ایسا بھی نہ ہو کہ قصائی چکوے کا کام کر رہی ہو تو قریشی بن جاو، یا جولاہے سے انصاری بن جاو. کی ھدوستانی طبقے نے اپنا نام عرب قبیلوں سے آنکھ بند کرکے وابستہ کر لیا ہے، اسے ناجایز ولدیت ہی کہا جا سکتا ہے٠
بڑا فخر محسوس کرتے ہیں ہاشمی کہلانے میں کیونکہ محمد بنی ہاشم قبیلے سے تھے جنکے بزرگ باسی تواسی بچی ہی روٹیوں کو فقیروں سے خرید کر ، پھر اسے کوٹ کوٹ کر وہ حشم (چور) کیا کرتے تھے جسے اونٹ کے شربے میں ملا کر بیچا کرتے
تھے. اسلئے انکا نام هاشمی پڑا٠
حسم کے معنی ہیں کوٹنے والا ٠
جاگو قرآن تمہاری شخصیت کو مجروح کر رہا ہے ٠

Thursday 21 July 2011

Soorah Almaoon 107 -



 
 
کٹر ہندو تنظیمیں اکثر قران کے خلاف آواز اٹھاتی رہتی ہیں مگر انکا مظاہرہ اور مطالبہ محدود شکل میں رہتا ہےکہ قران سے صرف وہی آیتیں تلف کر دی جایں جو کافروں کے ساتھ جہادی پیغام دیتی ہیں، باقی قران پر انکو کوئی اعتراض نہیں. اس مطالبے میں گہرا راز پوشیدہ ہے کہ وہ مکمّل قران کے خلاف کیوں نہیں؟ راز یہ ہے کہ باقی قران کو قایم رکھنے میں انکا مفاد پوشیدہ ہے کہ وہ درمیانے درجے کی آبادی کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں تاکہ انکو سستے کاریگر ، مستری، راج، بہشتی، ملوں کے سکلڈ مزدور آسانی کے ساتھ دستیاب ہوتے رہیں جو اپنی عاقبت کی فکر میں انکے ساتھ اپنی ایمان داری اور جفا کشی کو منسلک رکھیں.وہ انکے پروڈکٹس کے کنسیمر مارکیٹ بھی ہوتے ہیں٠ مہتر، چمار،پاسی وغیرہ تو انکے پرکھوں نے انکو دائمی طور پر مھییا کر رکھے ہیں٠
مسلم کٹترتا بیوقوف ہوتی ہے جو جہاد کرکے ایک بار میں ہی لوٹ پاٹ اور مار کاٹ کر لیتی ہے، ہندو کٹترتا چتر ہوتی ہے جو انسانوں کو ذہنی غلام بنا کر،انکا استحصال مسلسل کرتی رہتی ہے. انسان کو نہ مرنے دیتی ہے نہ مٹانے دیتی ہے٠ ہندوستان کے حقیقی باشندے پانچ ہزار سالوں سے "ہندوا" کے نرغے میں رہ کر انکے غلام بنے ہوئے ہیں. وہ سر اٹھاتے ہیں تو انکا خاتمہ نکسلی یا ماؤ وادی کہ کر بندوقوں سے کر دیا جاتا ہے٠
در اصل بنیادی طور پر دھرم اور مذہب ہی انسانوں کے سب سے بڑے دشمن ہیں٠
قوان کی مخالفت کمیو نشٹ ممالک اور بیدار کچھ یوروپین ملک کر رہے ، جہاں دھرم و مذہب کی افیم سے لوگوں کو چھٹکارا مل گیا ہے. وہ مکمّل قران کو نظر آتش کر دینے کی راے مسلمانوں کو دیتے ہیں، وہ پوری انسانیت کے علم بردار ہو چکے ہیں. انکی بات مسلمانوں کو مان کر یہ از خود اپنے ہاتھوں سے قران کو جلا دن ٠
بھارتی مسلمانوں کا کوئی یار و مدد گار نہیں، ایک طرف مذہبی گنڈوں کا پھاڑ ہے تو دوسری طرف "ہندوتو" کی کھائیں٠ مگر ایک راستہ ہے اگر مسلمان اسکے لئے راضی ہوں، مدد اپاہج اور محتاج لیا کرتے ہیں، مسلمانوں کو اپنی مدد خود ہی کرنی پڑیگی، بس ٹھوڈی سی جسارت کی ضرورت ہے کہ وہ مسلم سے مومن ہو جایں٠ مومن جو ایمان دار زندگی گزر کرتا ہے. وہ اسلامی کلمے کے جھوٹ کو نہیں جیتا٠.

نمازیو !٠


دیکھو تمہارا پیغمبر الله کا سہارا لیکر تم کو گمراہ کر رہا ہے. کسی ذھین شخص کو نشانہ بنا کر اپنے دل کی بھڑاس نکلتا ہے. وہ حالات کی نزاکت سے مسلمان تو ہو گیا ہے مگر محمّد کا ذہنی غلام نہیں بنا. وہ اپنے ساتھیوں سے محممدی روز جزا کی پول کھولتا ہے ، بات محمّد کے کانوں تک پہنچتی ہے، وہ اسکے خلاف قران بوکنے لگتے ہیں. زکات کے بھوکے محمّد نے اس رکن کی ایسی بنیاد رکھی ہے کہ آج قوم زکات خور بن چکی ہے٠ محمّد ایک گھٹے ہوئے انسان تھے جنکو جنگی فتوحات نے پیغبری کا درجہ دیدیا ہے٠


مومن 'نثار لا یمان '٠

Tuesday 19 July 2011

Soorah kausar 108












نمازیو ! ٠






نماز میں اکثر تم مندرجہ بالا سورہ پڑھتے ہو، چھوٹی ہے ، جلدی ختم ہو جاتی ہے ، نماز میں جلدی جو رہتی ہے، اس بے روح عبادت سے فرصت ملے، کہ
'اور بھی کام ہیں دنیا میں محبّت کے سوا.'
آؤ میں بتلاتا ہوں کہ اس سورہ میں گہرائی کیا ہے؟
خود ساختہ رسول کی بیک وقت نو بیویاں تھیں ، انکے علاوہ متعدد لونڈیاں، رکھیل بھی ہوا کرتی تھیں، کیونکہ بقول انکے وہ کسی بھی مسلمان عورت کو اپنی بیوی بنا سکتے، لا تعداد، کیونکہ جنس لطیف انکی دوسری ترجیح ہوا کرتی تھی. پہلی تھی پیغمبری . انھیں جنس لطف میں ایک تھی لونڈی ماریہ جو حاملہ ہو گئی تھی. اسکے حاملہ ہونے پر سماج میں چہ مہ گوئیاں ہونے لگی تھیں کہ نہ جانے کسکا پاپ اسکے پیٹ میں پل رہا ہے؟ بات جب زیادہ بڑھ گئی تو ماریہ نے محمّد پر دباؤ ڈالا کہ وہ اپنی زممیداری کا سامنا کریں. تب محمّد نے اعلان کیا کہ ماریہ کے پیٹ میں جو بچہ پل رہا ہے وہ میرا ہے. یہ اعلان رسوائی محمّد کے حق میں بھی تھا. خدیجہ کے بعد وہ اپنی دس بیویوں میں سے کسی کو حاملہ نہ کر سکے تھے گویہ ازسر نو وہ جوان ہو گۓ تھے یا پھر وہ جھوٹ ہی بولے ہوں، کہ انہیں وارث مل جایگا
بہرحال لعنت ملامت کے بعد یہ معاملا ٹھنڈا ہوا. اس سلسلہ میں ایک تعنہ زن کو محمّد نے قتل بھی کر دیا تھا٠
نو مہینے پورے ہوئے, ماریہ نے ایک اعداد لڑکا جنا محمّد کی بانچھیں کھل گیں کہ چلو میں بھی صاحب اولاد نرینہ ہوا. انہوں نے بیٹے کی پیدائش کی خوشیاں منائیں اور اسکا عقیقہ بھی کیا. دعوت ولیمہ بھی کیا اور نام رکھا اپنے مورث اعلا کے نام پر ابراہیم٠
ابراہیم ڈھائی سال کی عمر میں ہی الله کو پیارا ہو گیا. اسکی موت بھی محمّد کی ناقص لا قلی سے ہوئی کہ اسکو ایک لوھار کی بیوی کے پاس دودھ پلائی کی زممیداری پر چھوڑ رکه تھا. ایک دن ابراہیم کو دیکھنے گے تو پایا بچہ لب مرگ تھا اور آکر انکی گود میں فوت ہو گیا، وجہ تھی لوہار کے گھر میں دھویں کا غلبہ . بچہ کو لپٹا کر کہا کہ تیری اتنی ہی عمر تھی ،میں واقعی ملول ہوں٠
کھلی آنکھوں سے دوزخ اور جنّت دیکھنےاور اسکا حل بیان فرمانے والے دروغ گو رسول کے ساتھ نہ الله نے وفا کیا نہ اسکے نوکرجبریل نے. آخری وقت میں الله نے اپنے رسول کے ساتھ دغا بازی کی. انکا خواب چکنا چر ہو گیا٠
محللے کی عورتوں نے رسول پر فبتی کسی "بنتے ہیں الله کے رسول اور بوڑھاپے میں ایک لڑکا ہوا، وہ بھی لونڈی زادہ، اسکو بھی اپنے الله سے بچا نہ سکے. محمّد تعزیت کی جگہ تعانے پانے لگے٠
بلا کے بےشرم اور ڈھیٹ محمّد نے اپنے حربے سے کام لیا اور اتروا لی اپنے الله سے ایک اعداد وحیی جسے نمازیوں کو عبادت کے لئے دیدیا٠
الله نے لونڈی زادے کے بدلے محمّد کو کوثر کا حوض دیا کہ غم مت کرو مرنے کے بعد اس حوض میں آکر مچھلی پالن کرنا. تب تک تم نماریں پڑھتے رہو اور اونٹ ذبح کرتے رہو٠
.

Monday 18 July 2011

Soorah Kafroon -109








مکّہ کے معزّز قریش قبیلے نے ایک روز محمّد کے سامنے یہ سُجھاؤ رکّھا کہ نۓ فتنے کو ختم
کیا جاے، اسکے لۓ تجویز یہ ہے کہ سبھی اپنے اپنےمعبودوں کی عبادت ایک جگہ بیٹھکرکیا کریں،
کوئ کسی کی عبادت میںت مداخلت کرے, ھر فرقے کے مذہب کا احترام ہو۔ اس سے ہماری آپس میں
محبّت اور بھائا چارگی برقرار رہےگی۔ بات معقول تھی، نئ دنیا کے مہذّب سماج میں آج تک یہ
فضا وجود میں نہیں آئ ۔
اس پر محمّد کا جواب من درجہ بالا قرآنی آئعتیں تہیں۔بُت پرست مُشرقوں کی تجویز اُنکی طبع کے
خلاف تھی کیوں کہ اس میں جنگ جدال، لوٹ مار اور مالِ غنیمت کی برکتیں کہاں؟ اسکے علاوہ
انہوں نے اپنی رسالت پر خطرہ محسوس کیا۔
نمازیو؟
اپنے دل و دماغ کر اُستوری صداقتوں سے اٰراستہ کریں۔ قراٰنی اللاہ کی حکمتِ عملی میں کہیں بھی
معقولیت نہیں ھے۔ انسانیت کے اٰئںنہ میں محمّد ایک غیر معقول نمونہ ھیں۔محمّد کی طرح ھی اگر
آج کوئ اللاہ کاپیغام لیکر آ جاۓ تو تمہارا اُسکے ساتھ کیا برتاؤ ھوگا؟


خود کو آخرالزماںمنوا کرتم کو عقلی طور پر مسدود کیا گیا ہے۔




مومن ’نثارلا یمان‘۔

Saturday 16 July 2011

Surah-nasoor-110





محمّدی اللٰہ مسلمانوں کے وجود پر اپنے فعل کا خوف مُسلّط کۓ رہتا ھے
جسکی وجہ سے قوم عاقبت کی فکر میں ڈرپوک ہو گئ ھے۔ جیسے کوئ ماں
اپنے بچّے کو سُلانے کے لۓ کہتی ہے سو جاؤ نہیں تو باگڑ بلّا آ جاۓگا، ٨ !<
حالاںکہ یہ بات جھوٹ ہوتےہوۓبھی ماں کے لیۓ مُثبت پہلو رکھتی ہے کہ بچّے
کے سونے پر تھکی ماندی وہ بھی سو سکےگی مگر جھوٹ تو بہر حال جھوٹ
ہی ہے۔ محمّد مان کے اس طریقہ¬ کارجھوٹ کو ایسا اختیار کیا کہ مسلمان اس
محمّدی باگڑ بلّا کےخوف سے بالغ ہی نہیں ھو پا رہے۔اس محمّدی باگڑ بلّا کے
خوف سے وہ تاعمربچنے بچانے میں ہی مُبتلا رہتے ہیں۔
!نمازیو
فتح مکّہ تاریخِ انسانی میں سب سے تاریک دن تھاجس دن جہالت نے علم پر
فتح پائ ، جس دن دروغ نے صداقت کو مات دی جس دن ارتقإ کے پیروں مےن
زنجیریں ڈال دی گیں¬۔فتح نہیں وہ بربریت کا غلبہ تھا کہ انسانی دماغ بے
یار و مدد گار تھا اُمّی اور جاہل کی بڑی فوج کے سامنے۔ ایک دیوانہ ابنِ
خطل کعبہ کاغلاف پکڑے زار و قتار رو رھا تھا کہ اپنے بُزرگوں کے مقددس
دامن کو نہیں چھوڑوںگا، محمّد نے فرمان جاری کیاکہ قتل کردو۔ اُسے قتل
کر دیا گیا، کعبہ اُس زمانے کا اقوام متّحدہ تھا جسے جھوٹی پیغمبری نے تباہ و
برباد کر دیا۔
صدیوں تمام دنیا پر اسلامی قہر جاری رھا،لا تعداد انسانی خون کا حساب جب
ایک بندہ¬ احقر اللٰہ سے طلب کرتا ہے تو وہ چشم پوشی کرتا ہے۔ اسکی نا
انسافی سے تمکو آگاہ کرتا ہوں کہ نمازیں اپنے اوپر حرام کر لو۔



مومن ’نثارلا یمان‘۔

Friday 15 July 2011

Soorah laheb 111-













نمازیو!
ابو لہب محمّد کےسگے چچا تھے، ایسے چچا کہ جسنے چالیس سالوں تگ اپنے
یتیم بھتیجے کواپنی اماں میں شفقت کےساتھ رکھا۔ اپنے مرحوم بھائا عبدلّہ کی بیوہ
آمنہ کی کوکھ سے جنمیں محمد کی پیدائش کی خبر سن کر ابولہب خوشی سے
جھوم اُٹھے تھے، خبر لانے والی لونڈی کو اسی وقت آزاد کر دیا تھااور اسکو محمّد کے
لۓ دودھ پلائھ کی نوکری دیدی تھی۔ وہ بچپن سے لےکر جوانی تک محمّد کے سر
پرست رہے۔ انہوں نے دادا کے مرنے کے بعد انکی پوری ذمّیداری اُٹھائ اور پرورش
کی۔ یہاں تک کہ محمّد کی دو بیٹیوں کو اپنے بیٹوں سے منصوب کرکے محمدکو
سبک دوش کیا۔ اس شخص نے پل بھر میں اپنے بُزرگ کے تمام احسانات کو فراموش
گر دیا۔
وجہ تھی ۔ ۔ ۔
ہوا یوں تھا کہ ایک روز محمّد نے صنفہ پہاڑی پر قُریش خاندان کو اکٹّھا کیا اور
تمہید باندھتے ہوۓ اعلان کیا کہ اللھ نے دُنیا کے بندوں پر مجھے اپنا رسول مقرر
کیا ہے۔ محمد کے اس اعلان کو سنکر لوگ غم و غصّے سے بھر گۓ کہ ایک جاہل
مطلق کی جسارات تو دیکھو کہ ہم سب پر شبقت اور رہنمای حاصل کرنا چاہتا ہے۔
- - -
سب سےپہلے ابولہب نے زبان کھولی اور بولے
’’تو ماٹی ملے، کیا اسی لۓ ہم لوگوں کوبلایا ہے؟،،
ابو لہب کی اسی پہلی دین محمدی کے مخالفت پر قرآن کی یہ سورہ گڑھی گئت جو
قران میں اس بات کی گواہ ہے کہ ابو لہب پہلی ہستی ہے جسنے جھوٹ کو
سب سے پہلے نکارا تھا۔ سورہ لہب قرآن کی واحد سورہ ہے جس میں کسی فرد کا
نام درج ہے۔کسی خلیفہ یا قبیلے کے کسی شخص کا نام قرآن میں نہین ہے۔
ذکر میرا مجھ سے بڑھگر ہے کہ اُس محفل میں ہے۔
ابو لہب کو قران کا ہیرو کہا جا سکتا ہے۔



مومن ’نثارلا یمان‘۔




Thursday 14 July 2011

سورہ اخلاص- ١١٢







ہندوتان میں اسلامی تنظیموں کی دہشت گردی مسلسل برقرار ھے۔یہ
تخریب کار کہیں اور سے نہیں, مدرثوں سے فارغ ہونے والے طالب علم ہوتے
ہیں۔ میں برسوں سے کہرہا ہوں کہ مدرثوں میں یہی جہادی قرآن اور
حدیثیں پڑھائ جا رہی ہیں جس پر کوئ توجّہ نہیں دی جاتی، جب کہ
کروڑوں روپۓ انکے لوازمات میں برباد ھوتے ہیں۔ مدرثوں کی تعلیم کو جُرم قرار
دیا جاۓ، کٹّر پن پر خاص نظر رکھی جاۓ، یہاں تک کہ اسلامی داڑھی، ُ
ٹوپی اورلباس پر بہی شک کی نگاہ رکہی جاۓ، خاص کر نو جوانوں پر۔
نیتا کہتے ہیں کہ ایسے اقدام سے مسلم ووٹ بینک انکے ھاتھوں سے کھسک
جاےگا میرا ماننا ہے کہ ڈر ہندو ووٹ بینک کا ھے کہ اسسے مندروں پر بہی
پابندی ہونا لازم ہو جاۓگی۔ در اصل دھرم اور مذہب کی دنیا ہی فساد کی
جڑ ہیں۔ ملک کو ایک بڑے انقلاب کی ضرورت ھے۔

واقعی قدرت بے نیاز ہوتی ہے۔ اسکوکسی کے نفع یانقضان سے کوئ لینا دینا نہیں۔ وہ
اپنے آپ میں مست رہتی ہے، اسکو اس کی کوئ سمجھ نہیں کہ موسم بہار اور
سونامی میں کیا فرق ہے۔ وہ لا متناہی ہے، اسکا ایک نظام ہے جسےکوی نہیں جانتا۔
نمازیو!
سورہ اخلاص قراَن کی غنیمت سورہ ہے۔ پہلی غنیمت سورہ تھی سورہ فاتحہ۔ باقی


قرآنی سورتیں مکروہ ہیں جنہیں پڑھنے میں کراہیت ہوتی ہے۔ اگر قرآن کو قایم ہی


رکناہےتو ان دونوں سورتوں کو چھوڑ کرباقی قرآن نذرِآتش کر دیا جاے۔


عالمی برادری میںاگراسلام کی لاج بچانی ہے تو یہ صورت غنیمت ہے۔ویسے ضرورت ہےمکمل انقلاب کی۔
اس میں کوئ شک شُبہ نہیں کہ قدرت کی کوئت اولاد ہوتی ہے نہ وہ کسی کی
اولاد ہے۔ اسی طرح قدرت کی مذمت کرنا یا اسکی مدح سرائ کرنا بھی نادانی ہے۔
قدرت کا مقابلہ گرنا ہی قدرت کی منشہ ہے،اسکا پیغام ہے۔ قدرت پر فتح پانا ہی
اسکی آرزو ہے اور اسکا تجسّس ہے۔ تلاش انسانی زندگی کاراز ہے۔


تمام مخلوق کاغلبہ قدرت کی چاہت ہے، خود پرمغلوبیت اسگی نسوانی خواہش ہے۔




مخلوق پر غالب ہونااسکی مرداناشان ہے۔




مومن ’نثار لا یمان

Wednesday 13 July 2011

Soorah Falar+Soorah naasسورہ فلق ٣١١+ سورھ ناس ٤١١

















 
سورہ فلق ٣١١+ سورھ ناس ٤١١ پارہ٣٠




آج میں قرآن کی آخری دو سورتوں کو لے رہا ہوں جسکے بارے میں کہتے ہیں

کہ یہ بیک وقت نازل ہوئیں۔
اسکے پہلے میں نے سورہ فاتحہ کو لیا تھا جو کہ قران کی پہلی سورہ تھی
آخری تیسویں پارہ میں سورتوں کا سلسلہ قرآن میں الُٹا ہو جاتا ہے۔غالباً اس
سلسلے کی ترتیب ایسی ہوگی کہ قرآن کی جتنی سورہ مختصر ہیں، سب
تیسویں پارہ میں اکٹّھاکر دی گیں ہیں، تاکہ نمازیوں میں آسانی ہو کہ الحمد
کے بعد ان سورتوں کا استمعال ہو سکےاورتاکہ نماز میں آسانی رھے۔میرا
تبصرے کا سلسلہ بھی تیسویں پارے کے مطابق ہوگا. بچوں کو سپارہ میں
کچھ ایسا ہی پڑھایا جاتا ہے۔
سورہ فاتحہ میں، میں نے آپ کو بتلایا تھا کہ محمّد قرآن میں کبھی خود اپنے
منہ سے بولتے ہے، تو کبھی الله کے منہ سے، جسکو قلم کے زور سے عیّار علما
نے اسے الله کا وتیر! بتلایا ہے کہ الله کبھی اپنے منہ سے خطاب کرتا ہے
کبھی محمّد کے منہ سے، تو کبھی بندے کے منہ سے. میں پہلے سورہ میں
اس پر روشنی ڈال چکا ہوں۔
اب دیکھئے یہاں پران آخری سورتوں میں محمّدی الله کی وحدانیت کا پہلا
رکن ھی دم توڑ رھاہے۔ در پردہ محمّد کا کمزورالله سچ بول کر اپنی خدائی
کے خاتمے کا اعلان کر رھاہے۔
واقعہ یہ تھا کہ محمّد شدید طور پر بیمار ہو گۓ تھے، کہتے ہیں کہ ان کو
ریاحی عارضہ ہو گیا تھا اور پیٹ پھول جانے سے بیچینی ہو گی تھی. جبریل
علیھ لا سلام الله کی وحی لیکر نازل ہوئے اورمن درجہ ذیل آیتیں پڑھنا شروع
کیں، تب جاکر نبی کا جام کھلنے لگا۔
ان سے اس فرشتے نے کہلوایا کہ - - - ۔
"آپ کہئے کہ میں صبح کے مالک کی پناہ لیتا ہوں"
تا کہ آپ باقی وقتوں میں جہاد اور قتّال کرتے رہیں)۔
"تمام مخلوق کے شر سے ."
( آپ سے بڑی شری مخلوق کوئی ہے کیا؟)۔
"اندھیری رات کی شر سے جب آ ے."
( بیماری کے عالم میں محمّد جو بھی بڑ بڑاتے وہ سب الله کا کلام بن گیا)۔
"گاٹھوں پر پڑھ پڑھ کر پھونک مارنے والیوں کے شر سے"۔
( وحدانیت کی جگہ جھاڑ پھونک پر ایمان لے آے ؟)۔
"حسد کرنے والوں کے شر سے جب وہ حسد کرنے لگیں" ۔
(محمّد کے شب و روز گواہ ہیں کہ خود پکّے حسدی تھے) ۔
(سوراہ فلق )۔
"
تم گاٹھوں پر پڑھ پڑھ کر پھونک مارنے والیوں کو بھی الله کی طرح ہی
تسلیم کرو"
۔
"تم آدمیوں کے مالک بادشاہ کو بھی ، الله کی طرح مقام دو"۔
تم آدمیوں کے مختلف معبودوں ، لات منات اور عزا کو بھی تسلیم کرو کہ یہ
بھی الله کی طرح ہی کوئی طاقت ہیں" ۔
"وسوسہ ڈالنے والے وہم کو بھی خدا کا ہم پللہ تسلیم کرو، جب وسوسے میں
رہو"۔
جن بھوت پریت وغیرہ کو تو خیر تم دو نمبری الّاہ مانتے ہی ہو،
سو مانتے رہو"۔
(سورہ ناس)۔
مسلمان صرف ان دو سورتوں کی گیارہ آیتوں پر سنجیدگی سے غور و خوض
کر لیں تو یہ قرآن انکی سمجھ میں آ جایگا۔

نمازیو !۔
سورہ فلق اور سورہ ناس کا واقعہ یہ ہے کہ کچھ یہودنوں نے محمّد پرجادو
ٹونا کرکے انکو بیمار کر دیا تھا، تب الله نے یہ دونوں سورتیں بیک وقت
جبریل کو دیکر محمّد کی خدمت میں روانہ کیں. جبریل فرمایاکہ گھرکی
تلاشی لی جاۓ، تلاشی میں ایک تانت (سوکھے ہوئے چمڑے کی ڈوری) ڈوری
ملی، جس میں گیارہ گاٹھیں لگی پائ گیں. اسکے مقابلے میں مذکورہ آیات
پڑھی گیں، ھر آیات پر ایک ایک گانٹھ کھلتی چلی گیں، اس طرح ساری
گانٹھ کھل جانے کے بعد محمّد چنگے ہو گے. چند دنوں کی بیماری نے محمّد
کو ایسا سبق سکھلایا کہ اسلام توہم پرستی کا بول بالا ہوگیاایر وحدانیت کا
منہ کالا ھو گیا۔ محمّد کے پھولے ہوئے پیٹ سے محمّدی الله کی ساری ہوا
خارج ہو گئی۔
.جادو ٹونا کو اسلامی عالم جھوٹ قرار دیتے ہیں، جب کہ اسکی طاقت کے
آگے رسول الله انکی اماں کے طلبگار ہیں ۔
یہ قوم مسلمان کیا ہے؟
مسلمانوں کا ایمان کیا ہے؟
بھٹکے ہوئے محمّدی الله کی بھول بھلییا؟ یا خود فریبی ؟
کیا محمّد کو کوئی صداقت کی راہ نہیں سوجھی؟
الله ، اسکا فرشتہ اوراسکا پیغبرمل کر ڈرامہ کر رہے ہیں، کیا ان تعلیم یافتہ
مسلمانوں کی سمجھ میں کچھ نہیں آتا؟
!مسلمانو
میں تمہارا اور تمہاری نسلوں کا سچا خیر خواہ ہوں ۔
دنیا کی کوئی قوم تمہارے جیسی سوئی ہوئی نہیں ہے۔ ماضی پرستی تمہارا
ایمان ہے۔ تمہارا ایمان مستقبل کے لئے ہونا چاہئے۔
ہماری تحقیق، ہمارے تجربے، ہمارے لئے ابھی تک کا سچ ہیں، کل یہ جھوٹ
بھی ہو سکتے ہیں. تب تمہاری نسلیں نۓ سچ پر ایمان لاینگی، انہیں اسلام سے
آزاد کرو۔





مومن "نثارلا یمان
"
۔

Tuesday 12 July 2011

Soorah fateha سورہ فاتحہ







سورہ فاتحہ
(پہلی سورہ جس میں ٧ آیتیں ہیں)

قران الّاہ کا بولا ہوا کلام ہے. وہ شروعات اس طرح کرتا ہے - - -۔

کیا یہ الّاہ کا کلام ہو سکتا ہے ؟

یہ تو کسی بندے کی حمد ہے جو کہ الّاہ کی شان میں اوراسکی امان میں گزاری گئی ہے

یا پھر الّاہ کسی سپر الّاہ سے ایسی درخواست کر رہا ہے

الّاہ اگر اپنی طرف سے اس سورہ کو بیان کرتا تو وہ کچھ اس طرح ہوتی - - -۔

سب تعریف میرے لئے ہے، میں ہی پالن ہار ہوں ہر ہر عالم کا۔

میں بڑا مہربان ہوں،

نہایت رحم کرنے والا ۔

میں مالک ہوں روز جزا کا ۔

تو میری ہی عبادت کرو اور مجھ سے ہی درخواست کرو مدد کی۔

اے بندے ! میں ہی بتلاونگا تجھ کو سیدھا راستہ۔ راستہ ان لوگوں کا جن پر ہم نے انعام فرمایا۔

نہ کہ ان لوگوں کا جن پر ہم نے غضب کیا اور نہ ان لوگوں کا جو راستہ سے گمراہ ہوئے۔

اگر الّاہ اس طرح سے قرآن کو نازل کرتا تو یہ درست ہوتا.

مگر خود ساختہ الّاہ کے رسول کی گوٹ ایسے میں پھنس جاتی اور انہیں الّاہ کے پس پردہ اسکا رسول بن پانا مشقل ہو جاتا، بلکہ یہ کہنا ٹھیک ہوگا کہ محمّدا لّاہ کا قرآن ہی نہ بنا پاتے کیونکہ ایسے بڑ بولے الّاہ کو مانتا کوئی نہ، جو اپنے منھ میاں مٹھوبن رہا ہو۔

اس سلسلے میں اسلامی علما الّاہ کے بکواس کو یوں رفو کرتے ہیں کہ قرآن میں الّاہ کبھی خود اپنے منھ سے کلام کرتا ہے، کبھی بندے کے منھ سے.

کیا خدا ے بر ترکی بھی کوئی مجبوری رہی ہوگی جو اپنے بندوں کو وہم میں مبتلا کرتا رہے؟ خود اپنے ہی حضور میں گڑگڑاتا ہے ؟

اسکی قدرت تولامتناہی ہوگی، اگر وہ ہے. غور کریں پہلی آیت،

کہتا ہے - - -۔

"سب تعریف میرے لئے ہے، میں ہی پالن ہار ہوں ہر ہر عالم کا"۔

الّاہ کی خود ستائے اتنی بھی نہیں کہ وہ عدنا انسانوں کے آگے ایسی شیخی بگھارے، بھلے ہی وہ جللے شانہہ ہی کیوں نہ ہو. اپنی مخلوق کی پرورش اگر وہ ڈینگن ھانکنے کے لئے کر رہا ہے، تو اسکو مخلوق پیدا کرنے اوراسکی پالن ھاری کا سلسلہ بند کرے . ویسے بھی اسکی دنیا میں مخلوق دکھی زیادہ ہے اور سکھی کم ۔

دوسری آیت پرآویں - - -۔

آپ نہ مہربان ہیں نہ رحم والے. قرآنی آیتیں چیخ چیخ کر بیان کرتی ہیں کہ ی آپ بڑے منتقم ہیں اوربے قصورانسانوں کو ھر وقت قیامت کی آگ میں جھونکے رہتے ہیں، اگر وہ محمّد کی جہالت کا منکر ہے ۔

تیسری آیت- - -۔

یوم جزا، یہ یہودیوں کی قبر گاہ سے چوری کی گئی روحانیت کی لاش ہے،۔ اسکو عیسائیوں نے بہت گہرایوں میں دفن کر دیا تھا جسکو اسلام کھود کر نکال لایا اور قرآن کے حوالے کیا۔ قرآن یوم جزا کو دُھری نبانا کر، اس پر قایم ہو گیا ہے۔ مسلمانوں کی زندی کا مقصد یہ زمین نہیں، وہ خیالی آسمان ہے کی جنّت ہے جو اسکی حیات جاویدانی ہے۔ دراصل مسلمان یہودیت کو جی رہا ہے۔

چوتھی آیت - - -۔

الّاہ اپنے بندوں کی ذہنی غلامی چاہتا ہے، جسکا ورثہ محمّد کو ملنا ہے

پانچویں آیت- - - ۔

آیت میں الّاہ اپنے آپ سے یا اپنے سپر الّاہ سے درخواست گزار ہوتا ہے کہ وہ م اسکو راہ راست سجھاۓ۔ کیا کوئی الّاہ کبھی اپنے بندوں کو ٹیڑھی میڑھی راہ بتلاتا ہے؟ جی ھاں! وہ محممدی الّاہ ہے جو مسلمانوں کو ٹیڑھی میڑھی راہ بتلاتا ہے، انکو گمراہ کرتا ہے. جسکا انجام ہی ہے کہ آج مسلمان بھٹک رہا ہے، زمین پر نہیں بلکہ آسمان پر اپنی راہ، اسکے بے روح سجدے کر کر کے تلاش رھاہے۔خود قران کئی باراس بات کو دوہراتا ہے۔ " جسکو الّاہ گمراہ کرے، اسکو کوئی راہ پر نہیں لا سکتا"۔ کوڑھ مغض مسلمان کبھی بھی الّاہ کے اس قول پر غور نہیں کرتے کہ ایسی شیطانی حرکت الّاہ کیوں کرتا ہے؟ سوچتے نہیں کہ کہیں دال میں کچھ کالا ہے؟

چھٹیں آیت- - -۔

الّاہ کہتا ہے کہ "اسے ان لوگوں کی راہ بتلائی جاۓ جن پر کہ اسنے کرم کیا؟ یہاں شروع میں ہی میں بتاۓ دیتا ہوں کہ جن مٹھی بھر لوگوں پرمحمّدی الّاہ نے کرم کیا جن کے نام قرآن سو بار دوہراتا ہے, یہ لوگ عہد سنگ کے لوگ ہیں جب انسانی تہذیب ارتقائی عالم میں تھی اورانسان کپڑے اور جوتے بنانا اور پہننا سیکھ رہا تھا۔ ابراہیم (ابراہم)اسماعیل، اسحاق، لوط، یعقوب، یوسف، موسیٰ، داؤد، سلیمان زکریا ، مریم اورعیسیٰ علیہ لا سلامان وگیرہ ہیں جن الّاہ نے کرم کیا۔

ساتویں آیت - - -۔

غور طلب ہے کہ الّاہ غضب ڈھانے والا بھی ہے ؟۔ الّاہ اور اپنے مخلوق پر غضب ڈھاۓ؟ سب تو اسی کے نباۓ ہوئے ہیں، بغیراسکے حکم کے پتہ بھی نہیں ہلتا، انسان کی کیا مجال کہ کوئی من مانی کر سکے ۔ انسان کو کیوں ایسا بنایا کہ اس پر ظلم ڈھایا جاۓ؟ آخیرمیں الّاہ اپنے آپ سے یا اپنے سُپر سے د عا گو ہوتا کہ اسکو ایسا راستہ نہ بتلانا کہ جس پر چل کر ہم گم وھو جایں۔ گمراہوں کے بھی قرآن میں گنے چُنے نام آتے ہیں، راہ راست پر چلنے والوں کی طرح. وہ ہیں شیطان، آزر،ثمود، عاد، فرعون، بے نام لوط کی جورو وغیرہ وغیرہ۔ محمّد اپنے کچھ یہودی ہم رقابوں کی مدد سے معاملے میں الٹ پھیرکر کے اپنا قرآن رچا جسے عالم اسلام خوب جانتا ہے مگر دروغ آمیزی جنکی روزی روٹی ا بن چُکی ہے وہ اپنی خصلت سے مجبور ہیں۔ .

یہ سورہ فاتحہ کی ساتوں آیتیں بندے کے منہ سے ادا کی گئی ہیں. یہ سلسلہ قرآن میں برابر چلتا رہتا ہے، کبھی یہ الّاہ کے منہ سے ادا ہوتا ہے تو کبھی بندے کے منہ سے. اسےعیّارعلما الّاہ کی گفتگو کا اندازِ بیانی بتلاتے ہیں، مگر ماہرین نفسیات اسے انسان کی کمزور نیّتی قرار دیتے ہیں. اسمیں محمّدی اُمّیت اور جہالت کی بو آتی ہے.قرآن کی لن ترانی کسی مکّار کی وجدانی د کیفیت معلوم پڑتی ہے۔ محمد جب تک یاد رکھتے ہیںکہ میں الّاہ بن کر بول رہا ہوں تب تک تو زبان صحیح رہتی ہے اور جب بھول جاتے ہیں کہ الّاہ نہیں انسان ہوں، تو زبان گڈ مد ہو جاتی ہے. یہ بہت مشقل بھی تھا کہ کوئی امّی پوری قرآن کو الّاہ کے منہ سے خارج کر پاتا ۔۔


مومن "نثارِ لا یمان"۔

Sunday 10 July 2011

اُمّی کا دیوان=ummi ka dewan




اُمّی کا دیوان



محمّد نرے اُمّی تھے، مطلق جاہل۔ یہ قرآن ان پڑھ اور ایک اجڈ کا ہی دیوان ہے
جسے انکے گڑھے ہوئے الّٰہ کا کلام کہا جاتا ہے۔ علما نے قرآن کے ہیولے
گڑھے اور اسکے بڑے بڑے مراتب مقرر کئے، اسکی بلند ترین میناریں قایم کیں
اسے منطق اور سائنس کا جامہ پہنایا گیا، اسے راز و نیاز کا دفینہ قرار دیا
گیا۔ اسے عظمتوں کا نشان کہنے لگے تو کہیں پر جنّت کی کنجی لکھی گئ ۔
عالموں کا ڈھنڈھورا ہے کہ بہر حال قرآن نجات کی راہ ہے۔ نظام حیات تو ھر
عدنا پدنا مسلمان اسکو کہنے میں پھولے نہیں سماتا، گوکہ دن و رات مسلمان
انھیں قرآنی آیتوں کی گمراہیوں میں مبتلاپسپائوں میں سماتا چلا جا رہا ہے۔
عام مسلمان از خود کبھی قرآن کو سمجھنے اور بوجھنے کی کوشش نہیںکرتا
اسے ہمیشہ یہی عیّار عالمان دین ہی قرآن کو سمجھاتے ہیں۔
اسلام کیا ہے؟ اسکی برکتیں کیا ہیں؟؟
چھوٹے سے لیکر بڑے تک سارے مسلمان دانشتہ اورغیر دانشتہ طور پر اسکے
جھوٹ اور کھوکھلے فائدے اور برکتوں سے جڑے ہوئے ہیں۔ ان عالموں کا سب
سے بڑا ذریعہ معاش اسلام ہے، جوکہ محنت کش عوام کے کندھوں
پرمنحصر کرتا ہے یعنی باقی قوموں سے بچنے کے بعد مسلمان خود مسلمان کا
استحصال کرتے ہیں.دراصل یہی مذہب اور ملّت فروشوں کا طبقہ جوغریب
اوران پڑھ مسلمانوں کا خون چوستا ہے اور دوسروں سے بھی انکا خون چُسواتا
ہے ۔ یہ انکو اسلامی جہالت سے باھر نکلنے ہی نہیں دیتا۔


قرآن مسلمانوں کےلئے نظام حیات نہیں بلکہ عذابِ حیات ہے۔ اس بات کو سمجھنے کے لئے شرط
ہے کہ مسلمان عقیدت کی ٹوپی کو سر سے اُتار کے، کُھلے سر ہوکر قرآن کامطالعہ کریں اور حقیقت کو سمجھیں. قرآن میں ایک ھزار خامیاں اور گمراہ کن باتیں ہیں، اسے عقلِ سلیم کو پیش نظررکہ کے پڑھیں اور بنیادی سوالوں پرغور کریں۔
یہ کائنات آج سے اربوں خرابوں سال پہلے وجود میں آئں تھی، اس بیچ صرف
چودہ سو سال پہلے ہی الّٰہ نے منہ میں زبان پایا اور قرانی خرافات بکا، وہ بھی
کل تیئس(٢٣) سال اور چار مہینے؟ (مفروضہ رسول کی عمر پیمبری) اسکے
بعد الّٰہ ایسےغائب ہوا جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔اس دوران اسنے
یہودیوں کے فرشتے گبریل کو پکڑا اور قرانی آیتوں کا سسلہ اسکے کانوں میں
بھرنا شروع کیا، پھر اسنے الّٰہ کی باتیں محمّد کے کانوں میں پُھسکا اوراسکے
بعد محمّد نے با آواز بلند اعلان کیا فرمانِ الاہی۔
اس طرح بنتی رہی قرآنی آیتیں ؟
نادار قوم مسلمان اس ہوائی بت(الّٰہ)کے فریب میں آج تک مبتلا ہے، مٹی اور
پتھر کے بت سے جہاد پر آمادہ ہے۔
انسان جب حالت نیم حیوانی میں تھا تو اسکا ذھن ڈر یا خوشی کے عالم میں
کسی غیبی طاقت پر آ کر مرکوز ہو جایا کرتا تھا، جسنے آواز کی شکل پائی و
"ہو ۔ غالباً یہی"ہو" بنی نوع انسان کے منہ سے نکلی ہوئی پہلی آوازرہی گی۔
عرب کی تواریخ بتلاتی ہے کہ نوح کے زمانے تک انسان "ہو" کے عالم میں
ہی رہا ، بابا ابراہیم (ابرام) کے آتے آتے یہ "ہو" خدا بن کر "یا ھو" بن گیا
،جسے ارواح آسمانی کی طرح جانا جانے لگا . موسیٰ کے بعد یہودیوں نے اسے
اپنا نجی خدا بنا لیا اور نام دیا "یحوھ" . یہ "ھو ، یا ھو اور یحوھ " داؤد اور
سلیمان کے زمانے میں " الہ" اور"الوہی" ہوتا گیا ۔
عربوں میں خدا کا تخیُّل بہت سے ناموں کے ساتھ ہواکرتا تھا۔ طرح طرح کے
مختلف رائج ہندو دیوی دیوتاؤں جیسے انکےنام ہوا کرتے تھے۔ "لات، منات، عزا
وغیرہ" کے ساتھ ساتھ الّٰہ اور الہٰی جیسی غیبی طاقتیں تہیں جن کو یہودیوں
اورعیسایوں کی طرح ہی عرب بھی مانتے تھے۔
محمّد نے اسے ایک بدعتی نام دیا الّٰہ اورایک نیا خدا پیدا کیا، اس الّٰہ کو اسلام کے ساتھ مخصوص کیا
الّٰہ بنام "الّٰہ جلّہ جلالہو"محمّد کا خاص الّٰہ ہے جو جلالی، با کمال اور پُر
حکمت ہے۔

ویسے قرآن نے اسکے سو نام گڑھے ہیں. مگر یہ جلالی الّٰہ اسکی کی خاص
پسند ہےجو ھر وقت دوزخ کی آگ لئے مسلمانوں کے پیچھے پڑا رہتا ہے.غیر
مسلموں کو تو خیر وہ جہنّم رسیدہ فیصل کئے ہوئے ہے، چاہے انھیں اسلام کی
دعوت پہنچی ہو یا نہ پہنچی ہو، حتیٰ کہ اسلام سے قبل جو مرے، سب
جہنّمی ہوئے بھلے ہی وہ محمّد کے باپ ہی کیوں نہ ہوں. یہ بات خود امّی
محمّد اپنے ایک حدیث میں فرما چکے ہیں۔
جس الّٰہ کو محمّد نے گڑھ لیا، اس الّٰہ نے محمّد کو اپنا پیارا نبی بنایا، اپنا
محترم بنایا. وہ محمّد کو آپ جناب کرکے مخاطب کرتا ہے ۔ اپنا رسول بنا کر
اپنے پیغام کو عرش اعلا سے قران کی شکل میں اتارتا ہے کہ تم اور تمہارے
عربی وارثین عرض پاک کی بیس فی صدآبادی کو صدیوں تک اپنی جنگی
بھٹیو میں جھو ںکتے رہو اور وہ احمق ذلّت کی زندگی کو ڈھوتے رہیں۔
قرآن، خود سرمحمّد کی منصوبہ بند ایک خرافاتی تحریر ہے. یہ لال بجھککڑ
کے ذہنی معیار کا پھوہڑ نمونہ ہے. کٹھ مُلّئی کی شروعات محمّد کے فرمودات
سے ہوئی ہوگی. پورے قوان میں تضاد کی بھرمار ہے.کسی سورہ میں قرآن
کفر کا پرچار کرتا ہے تو کہیں پر وحدانیت کا. محمّد کی ظالم فطرت کی
ترجمانی قرآن بیان کرتا ہے. یہی نہیں، محمّد کی کوتاہ ذہنی اور نا عاقبت
اندیشی کو بھی قرآن اوڑھتا، بچھتا ہے. قرآن کی تمام خامیوں کو محمّد نے
بڑی ڈھٹائی کے ساتھ نمٹایا ہے. کہتے ہیں "کچھ آیتیں مشتبہ مراد ہیں جن کا
مطلب الّٰہ ہی جانتا ہے" اسکا فرمان ہے کہ اسکی تلاوت کرکے ثواب حاصل
کرنا چاہئے ، بنسبت سمجھنے کے. قرآن کے حافظے کا دستور مسلمانوں میں
رائاج ہے.لاکھوں لوگ اس غیر تعمیری کام میں لگے رہتے ہیں جس سے قوم
کی ترققی جام ہے۔
ایک بار پھر مسلمانوں سے گزارش ہے کہ قرانی آیتوں کا (خالص)ترجمہ
پڑھیں اور خود اپنے اندراس کا تجزیہ کریں، عقیدت کا چشمہ اتار کر اور ذہنی
باب کو کھول کر، قرآن کا تبصرہ بے خوف ہوکر خود اپنے اندر کریں تب
جاکر صداقت کےرو برو ہوپاینگے ۔

مومن " نثار لا یمان" ۔


Saturday 9 July 2011

ایمان اور ایمان داری کی بات







ایمان اور ایمان داری کی بات


میں ایک مومن ہوں جو ایمان کوسچائی،حق اور فطری تقاضوں کے پیمانے پر
ناپتاہے، تولتا ہے اور پھر تسلیم کرتا ہے۔
بقول غالب ۔۔۔


وفا داری بشرطِ اُستواری اصلِ ایماں ہےٰ
مرے بت خانے میں تو کعبہ میں گاڑو برہمن کو۔
مسلم بہر صورت اسلام کو تسلیم کئے ہوئے ہوتا ہے چاہے وہ حق بات ہو
یا نا حق. اسلام اس دھرتی پر نا حق نظام ہے، جو مذہبِ ناقص تو ہو
سکتا ہے مگر 'صداقت' نہیں.
مال غنیمت کے مذموم ذریعہ معاش نے اسے
ایک نئی اور بد ترین جہت دی ہے، جو دھیرے دھیرے ایک جنگی شکل
اختیار کر گئی ہے. قتل، جزیہ اور زکات کی بھر پائی، عوام کے ساتھ ظلم و
زیادتی اور نا انصافی کے سوا، اسلام نے دنیا کو دیا کیا ہے؟
اسلام نے دنیا پر جو قہر ڈھایا ہے، جتنا انسانی خون پیا ہے، کسی دوسری
تحریک نے نہیں. ماضی کی پردہ پوشی نہیں کی جا سکتی. قرآن خود ساختہ
رسول الّاہ، محمّد کی گڑھی ہوئی بکواس ہے، جسکو کتاب کی شکل دیکر
کلام الہی بنا دیا گیاہے۔
یہ کتاب نفرت، تشَدُّد، بغض اور نا انصافی کے سبق سکھلاتی ہے. انسانوں
میں آپس میں نفاق پیدا کرتی ہے۔ جنگ جنگ اور جنگ، انسانی معاشرے کو
پرُ امن تو کبھی رہنے ہی نہیں دیتی. نئی انسانی قدریں ہیں کہ اسکو برداشت
کر کے بھی مسلمانوں کوراۓ دے رہی ہیں کہ وہ خود انسانیت دشمن قرآنی
صفحات کو پھاڑ کرنذرآتِش کردیں. یہ انکی نیک صلاح ہے، ورنہ وہ
وہ چاہیں تو مسلمانوں کوانکے برے انجام تک پہنچا سکتی ہیں۔
مسلما نوں نے اسلام کا کلمہ¬ نا مرادکو پڑھ کر صرف اپنا ہی عاقبت بگاڑا ہے
دنیا کو دیا یا دنیا سے لیاکچھ نہین ؟
نئی دنیا کا رنگ اور اسکی برکتیں انھیں غیر مسلموں کی کاوشوں کا نتیجہ
ہیں، ترققی پسند ممالک کی دین ہیں. تمام سائنس دانوں کے علم کا پھل ہیں
جنکو یہ عاقبت کے سوداگر عالمان دین بڑی بےغیرتی کے ساتھ بھوگ رھے
ہیں۔
اب میں اس نادار قوم مسلمانوں کی جبوں حالی کے راز بتلاتا ہوں. اسلام
انتہائی بدحالی کے حالت میں عربوں میں اپنی بد حالی کو ڈھوتے ہوئے
وجود میں آیا۔ ڈاکہ زنی، شب خون، لوٹ پاٹ ابھی تک تاریخ انسانی میں
جرم ہوا کرتا تھا اور اس فعلِ بد کی سزا ملا کرتی تھی، مال غنیمت کہکر
محمّد نے اسے جائز قرار دیا، مذہب کے نام پر بے کاروں کو جنگی لوٹ مار
کی آسان روزی مل گئی۔
بنونزیر اور خیبر جیسی خوش حال بستیاں اس نئی وبا سے تباہ و برباد ہو گیں
دوسری طرف " اسلامی علم جہالت " کا رحجان مسلم حکمرانوں نے اسلامی
تحریک میں بڑھایا،جس سے ایک خواندہ طبقہ پیدا ہوا جو جنگی صعوبتوں سے
بچنا چاہتا تھا، وہ اسلام کی اشاعت اور طباعت میں لگ گیا یہ ناکارہ لوگ
قلم کا جوہر دکھانے لگے اور دوسرا جاہل گروہ زور تلوار، پھر کیا تھا
جہاد کی ساتھ جھوٹ، دروغ، لغو، مبالغہ اور مکر کی پُل بندھنے لگے
جنگون میں فرشتے لڑنے لگے، انکی تعداد کم و بیش پر، ھاراور جیت
منحصر ہونے لگیں. ہر معاملے میں الّاہ مداخلت کرنے لگا اور جبریل
علیہ لا سلام محمّد کی ہم رکاب ہوئے۔
سیکڑوں سالوں سے اس علم جارھیّت میں دانش مندی اور فلسفے بھرے جا رھے
ہیں. مسلمانوں کے سب سے برے مجرم یہ مردود علماۓدین ہیں. یہ ظالم نفی
میں مثبت کے پہلو نکالنے میں ماہر ہوتے ہیں. جاہل کو اُمّی لکھ کر، اسکی
نا عاقبت اندیشی کو دور اندیشی میں بدل دیتے ہیں. ہمیشہ ہی انکے مکر اور
ریا کاریوں کا بول بالا رہا ہے. کئی بار انکا سر بھی زہریلے ناگوں کی طرح
کچلا گیا، ان پر پابندیاں لگائی گیں، مگر یہ کمبخت ہوتے ہیں بہت
سخت جان ۔
آج انکا عروج ہے، ملک کا جمہوری نظام انکے پھولنے پھلنے کی لئے کافی
سازگار ہے. انکو پرواہ نہیں مسلمانوں کی بدحالی کی۔ انکو تو مسلمانوں پر
اقتدار چاہئے. مال غنیمت کی ساتھ ساتھ عزت اور شہرت۔ غُنڈوں کی طرح ہی
انکا بڑا مافیہ گروہ ہوتا ہے جو مسلمانوں کو چاروطرف سے جکڑے رہتا ہے,کوئی


برلا ہی ہوگا جو انکے جال سے بچا ہو۔
جہاد کی لوٹ ختم ہو گئی ہے مگر مدرسے کی تعلیم سے نکلے یہ دہشت
گرد مسلمانوں کو متاسّرکئے ہوئے ہیں۔
یہ ذلیل علما ہندستان کی سیاست میں چلّاتے پھرتے ہیں کہ اسلام امن اور
بھائذ چارےکا علم بردار ہے، کوئی انسے پوچھے کہ مدرسوں میں پڑھائی
جانے والی قرآن اور حدیثوں کے پیغام کوئی اور ہیں؟ یا یہی جس میں جہاد اور
نفرت کی بدبو آتی ہے؟
مال غنیمت اور جزیہ جو کبھی غیر مسلموں سے بزورتلوار مسلمان وصول کیا
کرتے تھے، اب یہ عالم مسلمانوں سے چندہ اور بھیک کی شکل میں وصول
کرتے ہیں. اس سے مسلمانوں کا دوہرا نقصان ہو رھا ہے۔ اس کے لئے انکو علم
نو سے ایک طرف محروم رکھا جاتا ہے تو دوسری طرف انکو مالی ہرجانہ ان
کمبختوں کو دینا پڑتا ہے. کبھی کبھی ¬توگولیوں سے بھُن جانا پڑتا ہے جیسا
کہ پاکستا ن افغنتان اور دیگر اسلامی ملکوں میں دیکھا جاتا ہے۔
مسلمانوں کی بھلائی اسی میں ہے کہ وہ ان سے کوسوں دور رہیں، اپنے
بچوں پر انکاسایہ نہ پڑنے دیں. انکے ذات اور انکی کوششوں سےحاصل کی
گئی سرکاری رعایت کو قبول نہ کریں. خوددار بنیں، بحیثیت عقللیت کسی
طرح کی سرکاری رعایت قبول نہ کریں، سرکارسےکہیں کہ مسلموں کو"
ورگ وشیش " لکھنا بند کرے، سرکار نے اپنے سکول اور کالجز کھول رکھے
ہیں، جہاں کوئی بھید بھاؤ نہیں ہے اور اگر ہے تو اسکا سامنا خود سیکولر بن
کر کریں. سرکاری ادارے بلا تفریق سب کی لئے ہیں. جو انکو ترک
کرکے مدرسہ جاتا ہے، انکی معاشی ذمّے داری سرکار کو نہیں لینی چاہئے،
بلکہ ایسے بچون کے ورثہ پر نذر خاص رکھنا چاہئے کہ جو دینی تعلیم
لیکر طالبانی تو نہیں بن رھے ؟
مذہب اسلام مکمّل طور پر غلط اور مہلک نظام ہے۔
مسلمانوں پر سارا زمانہ لعنت بھیج رھا ہے. یہ علما قوم کے مجرم ہیں. انکو
سمجھنے کی کوشِش کریں. ابھی سویرا ہے، جگ جایں¬، جاگنا بہت آسان ہے
بس دل کی آنکھ کھولنے کی ضرورت ہے. آپکو ترک اسلام کرکے خدا
نخواستہ ہندو نہیں بننا، نہ کرشچن، معمولی فرق کی ساتھ مسلم سے خود کو
مومن" بنا لیں. مومن جو سچائی پر ایمان رکھتا ہے، اسلامی کلمہ پر نہیں
آپکا نام، آپکی تہذیب اور آپکی زبان کچھ بھی نہیں بدلےگا، بس نجات
پایںگے اس جھوٹے اللھ سے جسکو محمّد نے چودہ سو سال پہلے گڑھا تھا,
نجات پاینگے اس خود ساختہ جھوٹے رسول سے اور اسکے جہالت بھرے
فرمودات قرآن اور حدیث سے جو آپ پر داغ بنکر لگ گے ہیں۔
.مسلمانوں! یہ دنیا تغییر پذیر ہے، تمام قومیں وقت کے حساب سے اپنی
فکراور نظریہ بدلتی رہتی ہیں، تم بائس اسلام آج بھی 1400 سال پیچھے ہو، تم
آج رسوائی اور ذلّت کے مقام پر پہنچ گے ہو. تمہارے یہ حرام زادے علما
ایک دن تمکو جھاڑو پنجہ تمہارے ہاتھوں میں تھما دینگے۔



مومن "نثارِایمان"ھ

حمد hamd