Monday 7 May 2012

Soorah yunus 10 2nd



اُمّی کا دیوان

محمّد نرے اُمّی تھے، مطلق جاہل۔ یہ قرآن ان پڑھ اور ایک اجڈ کا ہی دیوان ہے
جسے انکے گڑھے ہوئے الّٰہ کا کلام کہا جاتا ہے۔ علما نے قرآن کے ہیولے 
گڑھے اور اسکے بڑے بڑے مراتب مقرر کئے، اسکی بلند ترین میناریں قایم کیں
، اسے منطق اور سائنس کا جامہ پہنایا گیا، اسے راز و نیاز کا دفینہ قرار دیا 
گیا۔ اسے عظمتوں کا نشان کہنے لگے تو کہیں پر جنّت کی کنجی لکھی گئ ۔
 عالموں کا ڈھنڈھورا ہے کہ بہر حال قرآن نجات کی راہ  ہے۔ نظام حیات تو ھر
عدنا پدنا مسلمان اسکو کہنے میں پھولے نہیں سماتا، گوکہ دن و رات مسلمان 
انھیں قرآنی آیتوں کی گمراہیوں میں مبتلا، پسپائاوں میں سماتا چلا جا رہا ہے۔
عام مسلمان از خود کبھی قرآن کو سمجھنے اور بوجھنے کی کوشش نہیں کرتا 
اسے ہمیشہ یہی عیّار عالمان دین ہی قرآن کو سمجھاتے ہیں۔
 اسلام کیا ہے؟ اسکی برکتیں کیا ہیں؟؟ 
چھوٹے سے لیکر بڑے تک سارے مسلمان دانشتہ اورغیر دانشتہ طور پر اسکے 
جھوٹ اور کھوکھلے فائدے اور برکتوں سے جڑے ہوئے ہیں۔ ان عالموں کا سب 
سے بڑا ذریعہ معاش اسلام ہے، جوکہ محنت کش عوام پر کے کندھوں 
پرمنحصر کرتا ہے یعنی باقی قوموں سے بچنے کے بعد مسلمان خود مسلمان کا 
استحصال کرتے ہیں. دراصل یہی مذہب اور ملّت فروشوں کا طبقہ جوغریب 
اوران پڑھ مسلمانوں کا خون چوستا ہے اور دوسروں سے بھی انکا خون چُسواتا 
ہے ۔ یہ انکو اسلامی جہالت سے باھر نکلنے ہی نہیں دیتا۔ قرآن مسلمانوں کے 
لئے نظام حیات نہیں بلکہ عذابِ حیات ہے۔ اس بات کو سمجھنے کے لئے شرط 
ہے کہ مسلمان عقیدت کی ٹوپی کو سر سے اُتار کے، کُھلے سر ہوکر قرآن کا 
مطالعہ کریں اور حقیقت کو سمجھیں. قرآن میں ایک ھزار خامیاں اور گمراہ 
کن باتیں ہیں، اسے عقلِ سلیم کو پیش نظررکر    کے پڑھیں اور بنیادی سوالوں پر 
غور کریں۔
یہ کائنات آج سے اربوں خرابوں سال پہلے وجود میں آئں تھی، اس بیچ صرف  
چودہ سو سال پہلے ہی الّٰہ نے منہ میں زبان پایا اور قرانی خرافات بکا، وہ بھی 
کل تیئس(٢٣) سال اور چار مہینے؟ (مفروضہ رسول کی عمر پیمبری) اسکے 
بعد الّٰہ ایسے غائرب ہوا جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔اس دوران اسنے 
یہودیوں کے فرشتے گبریل کو پکڑا اور قرانی آیتوں کا سسلہ اسکے کانوں میں 
بھرنا شروع کیا، پھر اسنے الّٰہ کی باتیں محمّد کے کانوں میں پُھسکا اوراسکے 
بعد محمّد نے با آواز بلند اعلان کیا فرمانِ الاہی۔
اس طرح بنتی رہی قرآنی آیتیں ؟ن
 نادار قوم مسلمان اس ہوائی بت(الّٰہ)کے فریب میں آج تک مبتلا ہے، مٹی اور 
پتھر کے بت سے جہاد پر آمادہ  ہے۔
انسان جب حالت نیم حیوانی میں تھا تو اسکا ذھن ڈر یا خوشی کے عالم میں 
کسی غیبی طاقت پر آ کر مرکوز ہو جایا کرتا تھا، جسنے آواز کی شکل پائی و
"ہو" ۔ غالباً  یہی"ہو" بنی نوع انسان کے منہ سے نکلی ہوئی پہلی آوازرہی گی۔
عرب کی تواریخ بتلاتی ہے کہ نوح کے زمانے تک انسان "ہو" کے عالم میں 
ہی رہا ، بابا ابراہیم (ابرام) کے آتے آتے یہ "ہو" خدا بن کر "یا ھو" بن گیا  
،جسے ارواح آسمانی کی طرح جانا جانے لگا . موسیٰ کے بعد یہودیوں نے اسے 
اپنا نجی خدا بنا لیا اور نام دیا "یحوھ" . یہ "ھو ، یا ھو اور یحوھ " داؤد اور 
سلیمان کے زمانے میں " الہ" اور"الوہی" ہوتا گیا ۔
عربوں میں خدا کا تخیُّل بہت  سے ناموں کے ساتھ ہواکرتا تھا۔ طرح طرح کے
مختلف رائج ہندو دیوی دیوتاؤں جیسے انکےنام ہوا کرتے تھے۔ "لات، منات، عزا 
وغیرہ" کے ساتھ ساتھ الّٰہ اور الہٰی جیسی غیبی طاقتیں تہیں جن کو یہودیوں 
اورعیسایوں کی طرح ہی عرب بھی  مانتے تھے۔ محمّد نے اسے ایک بدعتی نام 
دیا الّٰہ اورایک نیا خدا پیدا کیا، اس الّٰہ کو اسلام کے ساتھ مخصوص کیا
الّٰہ بنام "الّٰہ جلّہ جلالہو"محمّد کا خاص الّٰہ ہے جو جلالی، با کمال اور پُر 
حکمت ہے۔
ویسے قرآن نے اسکے سو نام گڑھے ہیں. مگر یہ جلالی الّٰہ اسکی کی خاص 
پسند ہےجو ھر وقت دوزخ کی آگ لئے مسلمانوں کے پیچھے پڑا رہتا ہے.غیر 
مسلموں کو تو خیر وہ جہنّم رسیدہ فیصل کئے ہوئے ہے، چاہے انھیں اسلام کی 
دعوت پہنچی ہو یا نہ پہنچی ہو، حتیٰ کہ اسلام سے قبل جو مرے، سب 
جہنّمی ہوئے بھلے ہی وہ محمّد کے باپ ہی کیوں نہ ہوں. یہ بات خود امّی 
محمّد اپنے ایک حدیث میں فرما چکے ہیں۔
 جس الّٰہ کو محمّد نے گڑھ لیا، اس الّٰہ نے محمّد کو اپنا پیارا نبی بنایا، اپنا 
محترم بنایا. وہ محمّد کو آپ جناب کرکے مخاطب کرتا ہے ۔ اپنا رسول بنا کر 
اپنے پیغام  کو عرش اعلا سے قران کی شکل میں اتارتا ہے کہ تم اور تمہارے 
عربی وارثین عرض پاک کی بیس فی صدآبادی کو صدیوں تک اپنی جنگی 
بھٹیو میں جھو ںکتے رہو اور وہ احمق ذلّت کی زندگی کو ڈھوتے رہیں۔
 قرآن، خود سرمحمّد کی منصوبہ بند ایک خرافاتی تحریر ہے. یہ لال بجھککڑ 
کے ذہنی معیار کا پھوہڑ نمونہ ہے. کٹھ مُلّئی کی شروعات محمّد کے فرمودات 
سے ہوئی ہوگی. پورے قوان میں تضاد کی بھرمار ہے.کسی سورہ میں قرآن 
کفر کا پرچار کرتا ہے تو کہیں پر وحدانیت کا. محمّد کی ظالم فطرت کی 
ترجمانی قرآن بیان کرتا ہے. یہی نہیں، محمّد کی کوتاہ ذہنی اور نا عاقبت 
اندیشی کو بھی قرآن اوڑھتا، بچھتا ہے. قرآن کی تمام خامیوں کو محمّد نے 
بڑی ڈھٹائی کے ساتھ نمٹایا ہے. کہتے ہیں "کچھ آیتیں مشتبہ مراد ہیں جن کا 
مطلب الّٰہ ہی جانتا ہے" اسکا فرمان ہے کہ اسکی تلاوت کرکے ثواب حاصل 
کرنا چاہئے ، بنسبت سمجھنے کے.
آج بھی
  قرآن کے حافظے کا دستور مسلمانوں میں 
اکھوں لوگ اس غیر تعمیری کام  میں لگے رہتے ہیں جس سے قومکی ترققی جام ہے۔  
ایک بار پھر مسلمانوں سے گزارش ہے کہ قرانی آیتوں کا (خالص)ترجمہ 
پڑھیں اور خود اپنے اندراس کا تجزیہ کریں، عقیدت کا چشمہ اتار کر اور ذہنی 
باب کو کھول کر، قرآن کا تبصرہ بے خوف ہوکر خود اپنے اندر کریں تب 
جاکر صداقت کےرو برو ہوپاینگے ہو پآے۔

پیش ہے قرانی خرافات