Wednesday 3 August 2011

surah takasur 102 - para 30





 
آج کل مسلمانوں کے رمضان لا مبارک چل رہے ہیں.اس مہینے میں مسلمانوں کے رو زانہ کے معمول بدل جاتے ہیں. وہ سحری کے لئے رات تین بجے اٹھ جاتے ہیں، چولہہ گرم کرتے ہے، کھانہ تییار کرتے ہیں اور سورج نکلنے سے پہلے کھا پی لیتے ہیں، اسکے بعد فجر کی نماز ادا کرتے ہیں اور پھر چادر تان کر سو جاتے ہیں .رمضان میں کاروبار کا نظام بھی بدل جاتا ہے٠
بارہ بجے دن سے دو نئی باتیں روزہ داروں کے وجود میں آجاتی ہیں: پھلا غصّہ اور دوسرا منہ میں بدبو٠
١- روزداروں پر بارہ کے بعد روزہ سوار ہو جاتا ہے، معدہ احتجاج کرتا ہے کہ کتنا کام کریں؟ ابھی رات کا کھایا ہوا ٹھکانے نہیں لگا، پھر تڑکے پیٹ میں مال ٹھوس دیا. معدے کا ساتھ دماغ دیتا ہے اور روزدار کے وجود پر سوار ہو جاتا ہے. انسان اپنی ڈیوٹی سہی طور پر نہیں نبھا پاتا تو اپنے آپ میں جنگ شروع ہو جاتی ہے، ایسے میں مزاج میں تلخی آ جانا لازمی ہے٠
٢- روزدار سحری کے بعد کچھ بھی منہ میں نہیں ڈالتا کہ روزہ مکروہ ہو جایگا ، اسی ڈر سے وہ ٹوتھ پیسٹ بھی نہیں چکھتا، غرض اسکے منہ سے بھبھکہ آنے لگتا ہے، ناقابل برداشت بدبو، جسسے سامنے والے کوروزہ دار سے وحشت اور بیزاری ہونے لگتی ہے. روزہ دار اپنے منہ کی بدبو پر بھی راضی ہے کہ قران کہتا ہے کی الله کو روزہ دار کی منہ کی بدبو پسند ہے. کیسا بد ذوق ہے یہ محمّدی الله٠
ابھی رزہ کے حادثے ختم نہیں ہوئے. روزدار ایک گھنٹہ پہلے ہی کاروبار کو الله کے حوالے کرکے منہ بند روزہ کو کھولنے کی تییاری کرنے لگتا ہے. ٹھنڈا شربت، رنگ برگ لذیز افطاری، بیٹھ جاتا ہے' تصوّر جاناں کے ہوئے،' ایک ایک لمحہ اسکی نیت روزہ توڑا کرتی ہے، اذان کی آواز سنتے ہی وہ دانہ پانی پر ٹوٹنے لگتا ہے، کیوں کہ نماز مغرب اسکے کلیجے پر چڑھی رہتی ہے، افطار میں زیادہ دیر لگی تو رزہ مکروہ ہو جاتا ہے.اس افرا تفری میں رات کے بھرپیٹ خانے میں بھی اٹک جاتا ہے.' مرے پر سات دوررہ ،' تراویح سر پر سوار رہتی ہے. یہ بھی نماز کی ہی ایک صنف ہوتی ہے، بڑی جان لیوا ،لمبی لمبی سورہ والی نمازیں، نمازیوں کی کمر توڑ دیتی ہیں٠.
تھک ہار کے روزدار سوتا ہے اس کُھٹکے کے ساتھ کہ صبح سحری کرنی٠٠


 
نمازیو!٠


فتح مکّہ کے بعد محمّد نے احکام جاری کے تھےکہ حج میں کعبه کا طواف سینہ تان کر اکڑ کر کیا کرو کچھ دنوں بعد بوڑھے حاجیوں نے اس پر احتجاج کیا تو
حکم خارج کیا. یہاں محمّد متضاد بیان جاری کرتے ہیں کہ فخر کرنا تم کو غافل رکھتا ہے.فخر ، ناز اور کبر وغیرہ مختلف معنو میں نازک الفاظ ہیں جو انسان ذہن کی فطری علامتیں ہیں٠
محمد الله کی طرف سے غفلت برتنے کی بات اس لئے کرتے ہیں کی وہ پسِِِ پردہ خود الله بنے ہوئے ہیں٠
تین بار ہر گزنہیں کو دوہرانے والا کوئی الله نہیں بلکہ ایک دروغ گو انسان ہی ہو سکتا ہے٠
کہتے ہیں تم یقینی طور پر اگر جانتے کہ میں الله کا بھیجا ہوا ہوں( تو ٹھیک ہے ورنہ )। بعد میں الله کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ تم سبھی جہنمٓٓی ہو


آخری جملے میں وہ دیوانگی کے عالم میں جو کچھ بکتے ہیں اس پر آپ خود مطلب نکالیں ٠٠٠

No comments:

Post a Comment