Friday 23 September 2011

Soorah shams 91








 
اس دھرتی پر مختلف وقتوں میں سماج پر کچھ نہ کچھ واقعے اور حادثے ہوا کرتے ہیں
جسے نسلیں دو چار پشتوں تک یاد رکھتی ہیں پھراسے فراموش کر دیتی ہیں. انہیں یادگار کے لئے اگر مرتّب کیا جاۓتو لاکھوں حصّے زمیں کے ایسے ہونگے کہ ان پر کروڑوں واقعے اب تک رو نما ہو چکے ہونگے. انہیں یاد کرکے دوہراتے رہنا غیر تعمیری کام ہوگا جسکو کوئی بیوقوف ہی کرتا ہوگا٠
دنیا میں مسلمان ہی ایک قوم ایسی ہے جو ان حقیر واقعات کوحفظ کرتی ہے اور دوہراتی ہے٠
پچھلی سورہ میں تھا کہ آگ تاپتے ہوئے مسلمانوں اور کافروں میں کچھ کہا سنی ہو گئی
جب بات محمّد کے کانوں میں پہنچی تو یہ حقیر واقعہ قرانی آیت بن گیا. جسے مسلمان وضو کے ساتھ، نیت باندھ کر دوہراتے رہتے ہیں
ایسا ہی ایک واقعہ ابی لہب کا ہے کہ اسنے محمّد کی پیغمبری کا انکار کردیا تھا
تو محمّد نے اسے کوسا تھا "ابی لہب کا ہاتھ ٹوٹے - - -" اور وہ کوسنا قرانی آیت بن گیا جسکو مسلمان صدیوں سے گا رہے ہیں.اور ثواب پا رهے ہیں ٠
سورہ میں غور کے ساتھ ایک ایک جملے پڑھیں اور محمّد کی باتوں پر سر پیٹیں٠
نمازیو !٠
الله چاند کی قسم کھا رہا ہے جب کہ وہ سورج کے پیچھے ہو،اسی طرح دن کی قسم کھا رہا ہے جب کہ وہ سورج کو خوب روشن کر دے. گویہ احمق ٹھہرا الله، یہ بھی نہیں جانتا کہ سورج جب نکلتا ہے تو دن کو روشن کرتا ہے.وہ تو الٹا ہی جانتا ہے کہ دن جب نکلتا ہے تو سورج کو روشن کرتا ہے.اسی طرح رات کو الله ایک پردہ سمجتا ہے جسکے آڑمیں وہ جاکر چھپ جاتا ہے٠ .
ٹھیک ہے ہزارو سال پہلے قبیلوں میں یہ سمجھ نہیں آئ تھی مگر سوال یہ ہے کی کیا الله بھی انسانوں کی طرح ہی ارتقائی ذہن سے گزرا ہے ؟
مگر نہیں ! الله پہلے بھی یہی تھا اور آگے بھی یہی رہیگا . اگر وہ ہے تو وہ کبھی جاہل اور بے تمیز تو ہو ہی نہیں سکتا . قران امّی محمّد کی ذہنی اخترا ہے٠


قران میں بار بار ایک آوارہ اونٹنی کا تذکرہ آتا ہے . کہتے ہیں الله نے بندوں کا چلنج قبول کرتے ہوئے پتھر کے ایک ٹکڑے سے اونٹنی کو پیدا کر دیا اور بادشاہ نے اسے الله کی اونٹنی قرار دیکر آزاد کر دیا جسکو لوگوں نے مار ڈالا اور پھر قہر کے شکار ہوئے.
یہ کہانی اس وقت کی ہے جب انسان اونٹوں کے ساتھ جنگل میں رہتا تھا. محمّد اس اونٹنی کو تمام قران میں جا بجا چرا رہے ہیں ٠

No comments:

Post a Comment