Monday 15 October 2012

Soora Haj 22 (2)


************

نوٹ- سافٹ ویر کی مجبوری کے بائیس تحریر میں ہججے کی غلطیاں ہو سکتی ہے. براہِ کرم تعاون کریں . 


****************


بکروں کی عید

آج بکرا عید ہے . وہموں اور روایتوں کو جینے والے آج ہدوستان میں بکروں کی قربانی کا تیوہارمناتے ہیں، باقی دنیا میں بکر بمعنی گایوں کی قربانی کا مسلم تیوہار ہوتا ہے.
ہم لوگ بکر بمعنی بکری کا بچہ جانتے ہیں اس لئے کہ گاۓ ماتا کا مطلب ہم سمجھتے ہیں.اس تیوہارکوہم باقی دنیا سے مسلم الگ مناتے ہیں.
بکر عید کی بنیاد ہم نہیں جانتے. کل کا بوسیدہ الله جسے مسلمان آج بھی پکڑے ہوئے ہیں، غیر فطری اور ناجایزکام کو پسند کرتا ہے. الله کو پیاری ہے قربانی. الله کے بندے اسکو راضی کرنے کے لئے ان لاکھوں معصوم جانوروں کا خون نا حق کر دیتے ہیں، بھلے ہی یہ حماقت کا کام کیوں نہ ہو.
قربانی کی حقیقت یہ ہے کہ بابا ابراہیم کی کوئی اولاد نہ تھی. انکی بیوی سارہ جوانی کی آخری مرحلہ پر تھی ،اسنے اپنے شوہر کو راۓ دیا کہ وہ اپنی مصری لونڈی ہاجرہ  کو اپنے عقد ثانی میں لیلے تاکہ اسکی نسل جاری رہے .
 وہ سارہ کی  ضد پر راضی ہو گیا .
 حاضرہ حاملہ ہوئی تو اسکے کچھ نخرے اوررتبے پیدا ہوئے . مگر ہوا یوں کہ ابراہیم کی پہلی بیوی سارہ بھی حاملہ ہو گئی بس کہ اسکی مراد بر ائی.
 ہاجرہ نے اسمٰعیل  کو جنما تو سارا نے اسحاق کو جنم دیا.
 اس واقعے سے سارہ اپنی سوت ہاجرہ  سے جلنے لگی. اسنے اس سے ایسی دشمنی باندھی کہ پہلے بھی حاملہ حاضرہ کو گھر سے بہار نکال دیا تھا . یہ لاوارث در بدر ماری ماری پھری ، پھر سارہ سے معافی مانگ کر گھر میں داخل ہوئی. مگر اسمٰعیل کی پیدائش کے بعد سارہ اس سے پھر جلنے لگی اور خود جب اسحاق کی مان بنی تو اسکی رقابت عروج پرآ گئی .
اسنے ابراہیم کو اس بات پرآمادہ کر لیا کہ وہ ہاجرہ کے بیٹے اسمٰعیل کو الله کے نام پرقتل کر دے. ابراہیم  کے دماغ میں اسکا ایک معقول حل نکلا اور وہ اسکے لئے راضی ہو گیا.
ابراہیم اپنے بیٹے اسمٰعیل کو لیکر دورایک پہاڑی پر گیا ، اسنے راستے میں ایک دمبا بھی خرید لیا اوراسمٰعیل کی قربانی کا ایک واقعہ بنایا کہ
" اسمٰعیل  کی جگہ الله نے دمبا کو لاکر کھڑا کر دیا"
جو آج قربانی کے رسم کی ایک بنیاد بن گئی.
اس ناٹک سے اپنی دونوں بیویوں کو ابراہیم نے سادھ لیا.
جب ابراہیم نے اپنے بیٹے کی قربانی دینے کا ناٹک کیا تو وہ اکیلا تھا اور اسکا غیر مستند الله .
 بیٹا معصوم تھا
یعنی کوئی اسمٰعیل کی قربانی کا شاہد و گواہ نہیں تھا.
 توریت اور قران میں اس واقعے کا ذکر ہے مگر ان دونوں کا الوہی اورالله ابھی تک ثابت نہیں ہو سکے کہ انکا وجود ہے بھی یا محض یہ تصوّر میں قیام پذیر ہیں.
 دیگر قومیں ان وہموں سے پاک ہو رہی ہیں مگر مسلمان جاگ ہی نہیں رہا ہے، انکا کیا علاج ہے ؟ ہدستان میں بھی نر بلی اور پشو بلی کی روایت ہوا کرتی تھی جو اب وہ ماضی کے نشان بن چکے ہیں. مسلمان ابھی بھی ہزارو سال پرانہ ماضی جی رہا ہے. 
******************************

1 comment:

  1. اللہ ہدایت دے
    کاش اسلام کو سمجھا ہوتا

    ReplyDelete