Friday 2 January 2015

Soorah Lahab 111-30


************


نمازیو!
ابو لہب محمّد کےسگے چچا تھے، ایسے چچا کہ جسنے چالیس سالوں تگ اپنے
یتیم بھتیجے کواپنی اماں میں شفقت کےساتھ رکھا۔ اپنے مرحوم بھائا عبدلّہ کی بیوہ
آمنہ کی کوکھ سے جنمیں محمد کی پیدائش کی خبر سن کر ابولہب خوشی سے
جھوم اُٹھے تھے، خبر لانے والی لونڈی کو اسی وقت آزاد کر دیا تھااور اسکو محمّد کے
لۓ دودھ پلائھ کی نوکری دیدی تھی۔ وہ بچپن سے لےکر جوانی تک محمّد کے سر
پرست رہے۔ انہوں نے دادا کے مرنے کے بعد انکی پوری ذمّیداری اُٹھائ اور پرورش
کی۔ یہاں تک کہ محمّد کی دو بیٹیوں کو اپنے بیٹوں سے منصوب کرکے محمدکو
سبک دوش کیا۔ اس شخص نے پل بھر میں اپنے بُزرگ کے تمام احسانات کو فراموش
گر دیا۔
وجہ تھی ۔ ۔ ۔
ہوا یوں تھا کہ ایک روز محمّد نے صنفہ پہاڑی پر قُریش خاندان کو اکٹّھا کیا اور
تمہید باندھتے ہوۓ اعلان کیا کہ اللھ نے دُنیا کے بندوں پر مجھے اپنا رسول مقرر
کیا ہے۔ محمد کے اس اعلان کو سنکر لوگ غم و غصّے سے بھر گۓ کہ ایک جاہل
مطلق کی جسارات تو دیکھو کہ ہم سب پر شبقت اور رہنمای حاصل کرنا چاہتا ہے۔
- - -
سب سےپہلے ابولہب نے زبان کھولی اور بولے
’’تو ماٹی ملے، کیا اسی لۓ ہم لوگوں کوبلایا ہے؟،،
ابو لہب کی اسی پہلی دین محمدی کے مخالفت پر قرآن کی یہ سورہ گڑھی گئت جو
قران میں اس بات کی گواہ ہے کہ ابو لہب پہلی ہستی ہے جسنے جھوٹ کو
سب سے پہلے نکارا تھا۔ سورہ لہب قرآن کی واحد سورہ ہے جس میں کسی فرد کا
نام درج ہے۔کسی خلیفہ یا قبیلے کے کسی شخص کا نام قرآن میں نہین ہے۔
ذکر میرا مجھ سے بڑھگر ہے کہ اُس محفل میں ہے۔
ابو لہب کو قران کا ہیرو کہا جا سکتا ہے۔


No comments:

Post a Comment