Friday 15 February 2013

Soorah Ahzab 33 (in suport)



**************************

سورہ احزاب ٣٣ 


محمّد جب پیٹ میں ہی تھے کہ انکے باپ چل بسے تھے، بچپن میں ہی ماں کا انتقال ہو گیا تھا. دائی حلیمہ کے سپردگی میں انکا کافی وقت بیتا . اسکے بعد وہ اپنی ماں کی خادمہ کے ساتھ رہنے لگے جو کہ عمر میں انسے کچھ بڑی تھی، اتنی کہ انکی پیدائش پر انکا گوموت یہی کرتی تھی. رشتے دار تو بہت تھے، سگے دادا اور چچاؤں کی کثرت تھی ، مگر کوئی یتیم کا پرسہ حال نہ تھا . ویسے جھوٹے علما بہت سے سر پرستی لکھتے ہیں مگر ثابت یہ ہوتا ہے کہ وہ مکّہ کے لوگوں کی بکریاں چرا کر اپنا اور اپنی خادمہ کا گزارا کرتے تھے. پچیس سال کی امر تک انکی زدگی کی کوئی ہلچل نہ تھی.

محمّد کے مزاج کو دیکھتے ہوئے یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ سن بلوغت آنے پر اپنی حبشن لونڈی ایمن سے انکا جسمانی رشتہ بن چکا تھا. یہ بات پہلے معیوب بھی نہیں مانی جاتی تھی.
خدیجہ نے جب انکو اپنے ساتھ نکاح کی پیش کش کی تو انکی لاٹری نکل آئ . انسے عمر میں ١٥ سال بڑی تھی مگر مالدار تھی لہذاہ محمّد نے کوئی عذر نہ کیا اور انکی شرط مانتے ہوئے گھر جنوائی ہو گے اور ساتھ میں اپنی لونڈی کو بھی لے گۓ . اس بیچ ایمن حا ملہ ہو گئی. غالباً خدیجہ کے مشورے پر اسکی جہٹ پٹ شادی کر دینے کی بات محمّد نے مان لی. انکے پاس معصوم زید تھا جسکی عمر ابھی صرف ١٢ سال تھی ، ایمن کے ساتھ اسکا نکاح پڑھا دیا.زید بن حارثہ بھی محمّد کا زر خرید غلام تھا اور ایمان لونڈی ، کسی کو کوئی اعترض کا حق نہ تھا.
اسی زید بن حارثہ کی دوسری کہانی شروع ہوتی ہے جب محمّد نے اپنی رکھیل زینب کے ساتھ اسکا نکاح کیا.
اسلامی مورخین کی مجال نہیں جو ان سچائیوں کو قلم کی نوک پر لا سکیں
******************


 محمد  د  آل راؤنڈر
اک واقعہ پر سوز سناتا ہے مسافر
سر شرم سے جھک جاۓ اگر، اٹھ نہ سکے پھر
قزاق مسلمانوں کی ٹولی تھی سفر میں 
چھہ سال کا اک بچہ انھیں آیا نظر میں 
اغوا کیا اسکو بغرض مالِ غنیمت
بیچا اسے مکّہ میں محمّد نے دی قیمت
تھا نام اسکا زید پدر اسکا حارثہ
ماں باپ کا دلارہ، غلامی میں اب بندھا
 
بیٹے کے غم میں حارثہ پاگل سا ہو گیا
اسکو لگا تھا صدمہ، مرا زید کھو گیا
رو رو کے پڑھا کرتا جدائی کا مرثیہ
ہراک سے پوچھتا تھا وہ گُم زید کا پتہ
"لخت جگر کو دیکھ بھی پاونگا جیتے جی "
گریہ پہ اسکے روتی تھی غیروں کی آنکھیں بھی
ماحول کو رلاۓ تھی فریادِـحارثہ
اک روز اسکو مل ہی گیا زید کا پتہ
پوچها کسی نے حارثہ تو کیوں اداس ہے؟
مکّے میں تیرا لال محمّد کے پاس ہے
 
بھائی کو لیکے حارثہ مکّہ رواں ہوا
جو ہو سکا پھروتی کے اسباب رکھ لیا
دیکھا جو اسنے زید کو، بڑھ کر لپٹ گیا
خود پا کے زید باپ و چچا کو چمٹ گیا
حضرت سے حارثہ نے رہائی کی بات کی
حضرت نے پوچھا زید کی مرضی بھی جان لی؟
 
جب زید نے رہائی سے انکار کر دیا 
بڑھ کر نبی نے گود میں اسکو اُٹھا لیا
کہتے ہوئے " تو آج سے بیٹا ہے تو میرا
میں باپ ہوا تیرا، یہ مکّہ ہوا گواہ 
قربان مائی باپ تھے واسطے نبی
اس گھر میں ہی جوان ہوا زید اجنبی
 
قلب سیاہ باپ کے مذموم تھے سلوک
دیکھیں کہ ادا کیسے ہوئے بیٹے کے حقوق 
معصوم تھا، نادان تھا بالغ نہ تھا ا بھی
ایمن کے ساتھ عقد میں باندھا گیا تبھی
آمنہ کی لونڈی، ایمن تھی یہ غریب 
رنگیلے محمّد کے دل کے تھی قریب  
تیرہ برس میں زید اسامہ باپ تھا
تاریخ ہے، اسامہ محمّد کا پاپ تھا

پھر شادی ہوئی زید کی زینب بنی دلہن
رشتے میں محمّد کی پھوپھی زاد تھیں بہن
اک روز دفعتاً گُھسا گھر میں زید جب
زینب کو دیکھا باپ کے جانگوں میں پُر طرب
کاٹو تو اسکے خون نہ تھا، ایسا حال تھا
دھرتی میں پانو جم گے اٹھنا محال تھا
منہ پھیر کے وہ پلٹا تو باھر نکل گیا
پھر گھر میں اپنے اسنے کبھی نہ قدم رکھا

"ایمن کی طرح چلنے دے، دونوں کا سلسلہ "
حضرت نے اسکو لاکھ پٹایا، نہ وہ پٹا
 
اسلام میں نکاح کے کچھ اہتمام  ہیں
ازواج کے لئے کئی  رشتے حرام ہیں
جیسے کہ خالہ، پھوپھی، چچی اور مامیاں
بھائی بہن کی بیٹیاں، بہوؤں کی ھستیاں

بدبو اٹھی سماج میں مذموم فعل کی
ماحول میں چرچا ہوئی زینب رکھیل کی
بڈّھے کے گھر بیویاں موجود چار تھیں
پھر بھی حوس میں اسکو بہو بیٹیاں ملیں
 
لیکن کوئی بھی ڈھیٹھہ پیمبر سا تھا کہیں
لوگوں کی چھ مہ گویاں رکوا دیا وہیں 
اعلان کیا زینب منکوحہ ہے مری
ہے رشتہ آسمان کا، محبوبہ ہے مری
زینب کا مرے ساتھ فلق پر ہی تھا نکاح
الله میاں تھے قاضی تو جبریل تھے گواہ
قران میں اتری ہی سورہ کا جال ہے
منہ بولے، گود لئے کی بیوی حلال ہے
سورہ ے احزاب تفصیل بیاں  ہے 
بد فعل محمد کی تصویر عیاں ہے
ڈر تھا سماج کا، نہ تھا الله میں کا ڈر
انگریز بجا کہتے ہیں ، تھے آل راؤنڈر٠ 
****************************************

No comments:

Post a Comment